یمن میں حکومت اور حوثیوں کی علیحدہ کرنسی جاری، معاشی بحران کا خطرہ

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2020
بحران کے سبب تاجروں کو دو طرح کے نوٹوں کے سبب تجارت میں مشکلات کا سامنا ہے — فوٹو: اے ایف پی
بحران کے سبب تاجروں کو دو طرح کے نوٹوں کے سبب تجارت میں مشکلات کا سامنا ہے — فوٹو: اے ایف پی

یمن میں پانچ سال سے جاری بحران میں دونوں فریقین نے ایک نیا محاذ کھولتے ہوئے پرانے اور نئے بینک نوٹوں پر تنازع شروع کردیا ہے جس سے ملک میں ایک ہی وقت میں دو معیشتوں کے قیام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

دارالحکومت صنعا پر قابض حوثی باغیوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئے یمنی ریال کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ: یمن جنگ بندی کی نگرانی کیلئے کمیشن کی منظوری

عوام سے پرانے نوٹوں کے استعمال کا مطالبہ کرنے والے یمن کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے اپنی جانب سے نئے نوٹوں پر عائد پابندی کا دفاع کرتے ہوئے اسے مہنگائی کے خلاف اقدام قرار دیا۔

حکومت نے حوثی باغیوں کی جانب سے پابندی کے اعلان کو معیشت تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا۔

دونوں جانب کے یمنی عوام کا کہنا ہے کہ پابندی سے مختلف قیمتوں کی حامل دو کرنسیوں نے جنم لے لیا ہے جس سے بحران کا شکار ملک کے مزید مشکلات سے دوچار ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

پابندی سے ایک ماہ قبل حوثی باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں عوام قطاروں میں لگ کر نئے نوٹوں کی جگہ پرانے نوٹوں کے حصول میں سرگرداں نظر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: یمن کے مستقبل میں حوثی باغیوں کا کردار ہوگا، متحدہ عرب امارات

جس وقت پابندی کا اعلان کیا گیا تو اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں یمنی ریال کی قیمت 560 تھی اور اعلان کے بعد حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں اس کی قدر کم ہو کر 582 جبکہ حکومت کے زیر انتظام جنوبی علاقوں میں مزید کم ہو کر 642 روپے ہو گئی۔

اب ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان تجارت مزید برا مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ تاجروں کو اب دو طرح کے ریال میں خرید و فروخت کرنی پڑے گی جہاں دونوں ہی کرنسی کا کاغذ، رنگ اور ڈیزائن بالکل مختلف ہے۔

صنعا میں موجود اکثر افراد کا ماننا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے یہ پابندی ضروری تھی اور انہیں محض کچھ وقت ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

صنعا کے نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے 28 سالہ عبداللہ بشیری نے کہا کہ جب نئی کرنسی آئی تو نئے اور چمکدار نوٹوں نے لوگوں کو بہت متوجہ کیا اور انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن اب جن کے پاس یہ نئی کرنسی ہے، انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: یمنی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ

2014 میں صنعا پر حوثی باغیوں کے حملے اور صدر عبدالرب منصور ہادی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد یمن کا مرکزی بینک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس میں سے ایک صنعا میں حوثیوں کے زیر سایہ کام کر رہا ہے جبکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ شاخ عدن میں کام کر رہی ہے جس کی نوٹوں کی چھپائی تک رسائی بھی ہے۔

عدن میں موجود حکومتی حکام 2017 سے جاری نوٹوں کی چھپائی کے اس عمل کی حمایت کرتے ہوئے اسے نقد رقم کی رسائی یقینی بنانے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا واحد طریقہ کا قرار دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں