مقبوضہ جموں و کشمیر میں سوشل میڈیا کے بغیر انٹرنیٹ کی محدود بحالی کا امکان

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2020
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 6 ماہ سے انٹرنیٹ کی سروس بدستور معطل ہے—فائل/فوٹوؒرائٹرز
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 6 ماہ سے انٹرنیٹ کی سروس بدستور معطل ہے—فائل/فوٹوؒرائٹرز

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 6 ماہ کی طویل بندش کے بعد بھی انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس کی محدود پیمانے پر بحالی کا امکان ہے جس میں شہریوں کو سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہوگی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی مقامی حکومت نے ایک نوٹس میں کہا ہے کہ 300 وائٹ لسٹڈ ویب سائٹس تک محدود انٹرنیٹ کی رفتار بھی بدستور سست رہے گی۔

نوٹس میں کہا گیا کہ صارفین کو آپس میں رابطے کی سہولت دینے والی سوشل میڈیا کی ایپلی کیشنز پر پابندی برقرار رہے گی۔

مقامی حکومت کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کا 31 جنوری کو جائزہ لیا جائے گا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سروس کی محدود بحالی کا اعلان بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی انسانی حق اور غیر معینہ مدت ان کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی بحالی کے حکم کے بعد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر میں تمام پابندیوں کے ازسرِِ نو جائزے کا حکم

نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت پورے بھارت میں اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کے پیش نظر انٹرنیٹ سروس کو معطل کرنے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی معطلی کے حوالے سے بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ یہ خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اقدام ہے۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو معطل کردیا تھا اور اس کے ساتھ پورے مقبوضہ کشمیر میں بلیک آؤٹ کردیا تھا۔

مودی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی معطلی اور لاک ڈاؤن کے باعث معمول کی زندگی گزشتہ 6 ماہ سے معطل ہے جہاں نہ تو تعلیمی ادارے کھلے ہیں اور نہ ہی دیگر سہولیات آزادانہ طریقہ سے مہیا کی جارہی ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں کاروبار، بینک اور ٹیکس ریٹنز کی سہولیات بھی معطل ہیں اور کالجوں میں نئے داخلے بھی بروقت شروع نہ ہوسکے ہیں۔

حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی محدود بحالی کی اجازت سے بھارت کے اسٹیٹ بینک اور ایچ ڈی ایف سی، تعلیمی اداروں، نیوز، تفریحی ویب سائٹس بشمول ایمازون پرائم، ٹریول، یوٹیلیٹیز اینڈ فوڈ ڈلیوری ویب سائٹ جیسے سویگی اور زوماٹو کی ویب سائٹس تک عارضی رسائی دی جائے گی۔

نوٹس کے مطابق سرچ انجن گوگل اور یاہو کی سرچنگ اور ای میل کرنے کی بھی عارضی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر میں شٹ ڈاؤن سے ایک ارب ڈالر کا نقصان

اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں مقامی حکومت نے مختلف علاقوں میں محدود سروس بحال کی تھی لیکن اکثر لوگ تاحال آن لائن سہولت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑا سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم ناصر نبی کا کہنا تھا کہ وہ فاصلاتی کورس کر رہے ہیں لیکن یونیورسٹی کی ویب سائٹ تک رسائی میں ناکام ہیں جبکہ حکام کے مطابق یہاں انٹرنیٹ کو بحال کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے باعث وہ کورس اور امتحانات سے متعلق دیگر مواد ڈاؤن لوڈ کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

کپواڑا سے ہی ایک دکان دار شمیم احمد نے انٹرنیٹ کی محدود بحالی پر کہا کہ انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست ہے جس کے باعث انہیں بینک ٹرانزیکشنز کا عمل مکمل کرنے میں مشکلات پیش ہیں اور اکثر یہ عمل ناکام ہوجاتا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ایکسس ناؤ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں 150 روز سے طویل عرصے تک انٹرنیٹ کی بندش کسی بھی جمہوریت میں طویل ترین ہے۔

مزید پڑھیں:مقبوضہ کشمیر میں 72 روز بعد موبائل پوسٹ پیڈ سروس بحال، انٹرنیٹ تاحال بند

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 10 جنوری کو اپنے فیصلے میں انتظامیہ کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست کو عائد کی گئیں پابندیوں کا از سر جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

جسٹس این وی رامانا، آر سبھاش ریڈی اور بی آر گوائی پر مشتمل عدالتی بینچ نے کہا تھا کہ’ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی اظہار رائے کے ساتھ انٹرنیٹ تک رسائی کا حق شامل ہے لہٰذا انٹرنیٹ پر پابندیوں کے لیے آرٹیکل 19(2) کے تحت تناسب کے اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے‘۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’کسی خاص مدت کے بغیر اور غیر معینہ مدت‘ تک انٹرنیٹ کی معطلی ٹیلی کام قوانین کی خلاف ورزی ہے، پابندیوں سے متعلق تمام احکامات کو شائع کیا جانا چاہیے تاکہ انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ من مانی کرتے ہوئے بنیادی اختیارات پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

بینچ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ہماری محدود تشویش لوگوں کی آزادی اور سیکیورٹی سے متعلق توازن تلاش کرنا ہے، ہم شہریوں کو حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے یہاں موجود ہیں، ہم ان احکامات کے پیچھے موجود سیاسی خواہشات تلاش نہیں کریں گے‘۔

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے لے کر اب تک مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے اور مواصلاتی بلیک آؤٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے چند ماہ بعد فون کالز اور محدود ٹیکسٹ میسیجز کی اجازت دی گئی تھی تاہم انٹرنیٹ سروسز تاحال معطل ہیں۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تھا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

بعدازاں 31 اکتوبر کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سخت سیکیورٹی کی موجودگی اور عوامی غم و غصے کے باوجود وادی پر براہِ راست وفاقی حکومت کی حکمرانی کا آغاز کیا تھا جس سے متنازع علاقہ اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوگیا تھا۔

بھارت نے مواصلاتی بندش کے علاوہ کشمیر کے مقامی رہنماؤں کو گرفتار، ان کے سفر پر پابندی عائد کی تھی اور ہزاروں اضافی فوجیوں کو سیکیورٹی خدشات ظاہر کرتے ہوئے وادی میں تعینات کیا تھا۔

مقبوضہ وادی میں کریک ڈاؤن کی وجہ سے سیاحت کے علاوہ زراعت، باغات اور آرٹس اینڈ کرافٹس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں