حمل کے حوالے سے بیشتر افراد ایسے مشوروں یا معلومات پر یقین رکھتے ہیں جن کو طبی سائنس غلط ثابت کرچکی ہے۔

درحقیقت اس حوالے سے بہت زیادہ توہمات اور غلط معلومات لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔

ان چند توہمات اور ان کے پیچھے چھپی سچائی کے بارے میں جانیے جو ہوسکتا ہے کہ آپ کو حیران کردے۔

جڑواں بچوں کا حمل بہت کم ہوتا ہے

یہ بات غلط ہے، درحقیقت جڑواں بچوں کا حمل لوگوں کی توقعات سے بھی زیادہ عام ہے، امریکا کے محکمہ صحت کے مطابق 2017 میں امریکا بھر میں ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی اور اس ملک میں ہر ہزار میں سے 33 زچگیاں جڑواں بچوں کی ہوتی ہیں۔

سینے میں جلن اور بچے کے بال

ایسا مانا جاتا ہے کہ دوران حمل ماں کو سینے کی جلن کی شکایت کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بہت زیادہ بال ہوں گے اور اس کی تصدیق کے لیے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں، 2006 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 28 میں سے 23 خواتین نے سینے میں جلن کی شکایت کی اور ان کے بچوں کے بالوں کی شرح اوسط یا تھوڑی زیادہ تھی، محققین کے خیال میں دوران حمل ہارمونز بالوں کی نشوونما اور غذائی نالی کے مسلز کو پرسکون کرتے ہیں اور یہی اس کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔

بچے کی جنس کی پیشگوئی ممکن

اس حوالے سے متعدد تیکنیک کا حوالہ دیا جاتا ہے جو لوگوں کے خیال میں بچے کی جنس کی پیشگوئی کرسکتی ہیں، جیسے حاملہ خاتون کے چہرے کی ساخت یا پیٹ پر انگوٹھی کو چکر دینا وغیرہ، مگر ان میں سے کوئی طریقہ کار بچے کی جنس کی درست پیش گوئی کرنہیں سکتا۔

حاملہ خواتین کو 2 افراد کی غذا کھانی چاہیے

یہ تو درست ہے کہ حمل کے دوران خواتین کو کیلوریز کی مقدار میں معمولی اضافہ کرنا چاہے مگر بہت زیادہ کھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہت زیادہ کھانا بچے اور ماں دونوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے، حمل کی پہلی سہ ماہی کے دوران اضافی کیلوریز کی ضرورت نہیں، دوسری سہ ماہی میں 340 کیلوریز اضافی جبکہ تیسری سہ ماہی میں 450 اضافی کیلوریز کا مشورہ دیا جاتا ہے، حاملہ خواتین کو صحت کے لیے فائدہ مند غذا پر زیادہ زور دینا چاہیے۔

دوران حمل ورزش نہیں کرنی چاہیے

یہ بھی غلط ہے درحقیقت بیشتر خواتین کو دوران حمل ہلکی یا اعتدال میں رہ کر ورزش کرنی چاہیے، جبکہ ورزش نہ کرنے والی خواتین کو ایسا کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔

دوران حمل جی متلانا اور قے وغیرہ صرف صبح ہوتی ہے

اس کیفیت کو مارننگ سکنس کا نام دیا جاتا ہے مگر حاملہ خواتین میں اس کا اثر پورا دن نظر آتا ہے، 2 فیصد سے بھی کم خواتین کو صرف صبح کے وقت اس کا تجربہ ہوتا ہے، یہ تجربہ عام طور پر حمل کے چوتھے ہفتے سے 16 ویں ہفتے تک ہوتا ہے۔

مخصوص غذاﺅں سے الرجی

کچھ افراد چند مخصوص غذاﺅں کا استعمال جیسے گریاں اور دودھ وغیرہ سے حاملہ خواتین کے ہونے والے بچوں میں الرجی کا باعث قرار دیتے ہیں، اگر ان خواتین میں ماضی میں کبھی ان غذاﺅں سے الرجی کی شکایت نہیں ہوتی ان کے بچوں میں بھی ان غذاﺅں سے الرجی کا خطرہ نہیں ہوتا، مگر چند غذاﺅں جیسے کچے گوشت، سی فوڈ اور نرم پنیر وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے مگر اس کی وجوہات مختلف ہیں، اس حوالے سے ڈاکٹر بتاسکتے ہیں کہ کونسی غذاﺅں کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

دوران حمل چائے یا کافی نقصان دہ

درحقیقت دوران حمل چائے یا کافی کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر کیفین کی مقدار 200 ملی گرام یا اس سے کم ہونی چاہیے۔

دوران حمل خواتین خوش باش رہتی ہیں

متعدد خواتین کے لیے حمل بہت مشکل ثابت ہوتا ہے، ہارمونز، جسمانی تبدیلیاں اور تھکاوٹ جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتے ہیں، ویسے بھی کوئی بھی فرد ہر وقت خوش باش نہیں رہ سکتا اور حاملہ خواتین بھی ہم سے مختلف نہیں ہوتیں۔

آپریشن کے بعد اگلی بار نارمل ڈیلیوری ممکن نہیں

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پہلے بچے کی پیدائش آپریشن سے ہوئی ہے تو اگلی بار نارمل ڈیلیوری ہوسکتی ہے، اس کا فیصلہ ڈاکٹر حمل کی صورتحال اور ممکنہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔

کچھ غذائیں اور مشروبات ڈیلیوری میں مدد دیتے ہیں

اس حوالے سے قدرتی اور متبادل ادویات کے اثرات کے بارے میں سائنسی معلومات موجود نہیں اور ایک تحقیق کے مطابق کچھ ہربل ادویات موثر ثابت ہوسکتی ہیں مگر اس حوالے سے مقبول قدرتی طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں ان میں انناس، کیسٹر آئل اور مصالحے دار غذائیں وغیرہ قابل ذکر ہیں اور وہ جلد ڈیلیوری میں مددگار نہیں ہوتے۔

دوران حمل ازدواجی تعلقات سے گریز

جسمانی تعلق صحت مند زچگی پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرتا اور قبل از وقت پیدائش کا خطرہ نہیں بڑھتا، اور ممکنہ پیچیدگیوں کو تاحال ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس حوالے سے کوئی فکرمندی ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کرلینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں