لاہور: ‘ریاست مخالف’ پوسٹ کے الزام میں گرفتار صحافی کی درخواست ضمانت مسترد

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2020
صحافی اظہار الحق کو رواں ماہ کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل/فوٹو:رانا بلال
صحافی اظہار الحق کو رواں ماہ کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل/فوٹو:رانا بلال

لاہور کی سیشن عدالت نے فیس بک پر مبینہ طور پر ‘ریاست مخالف’ پوسٹ کرنے پر گرفتار صحافی کی ضمانت بعد از گرفتار کی درخواست مسترد کردی۔

نجی ٹی وی ‘چینل فائیو’ اور اخبار ‘روزنامہ خبریں’ سے منسلک صحافی اظہار الحق کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے رواں ماہ کے آغاز میں گرفتار کیا تھا اور انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج مصباح خان کی عدالت میں نوجوان صحافی اظہار الحق کی طرف سے میاں داؤد ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور کہا کہ ایف آئی اے نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت اور سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں تنقید کرنے پر گرفتار کیا۔

مزید پڑھیں:لاہور: 'ریاست مخالف مواد' پوسٹ کرنے والے صحافی کا جسمانی ریمانڈ

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے حقائق دیکھے بغیر ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کو خارج کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف ایف آئی اے کی تفتیش کو تسلیم کرنا شفاف ٹرائل کے خلاف ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل 8، 9 بهی شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

نوجوان صحافی کے وکیل نے دلائل دیے کہ قانون کے تحت 10 سال سے کم سزا کی دفعات میں ماتحت عدالتیں ضمانت دینے کی پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوجوان صحافی کو صرف اس لیے نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا تاکہ میڈیا میں مزید خوف پیدا کیا جا سکے، کیا وزرا یا چند افراد پر تنقید کسی بهی ادارے کے خلاف تنقید ہو سکتی ہے؟

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ صحافی اظہار الحق کے فیس بک پیج سے سیکڑوں غریب افراد کے مسائل کے لیے بهی آواز اٹهائی جاتی تهی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی دفعہ 11 اور 20 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 بهی شامل کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ پراسرار، نامعلوم عناصر سے ہے، سی پی این ای

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے نے بے بنیاد الزام لگا کر صحافی اظہار الحق کو گرفتار کیا ہے، آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے اور ایف آئی اے نے جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا، وہ الزامات مقدمے کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

درخواست ضمانت میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئین پاکستان میڈیا کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اس لیے صحافی اظہار الحق کی ضمانت منظور کی جائے۔

ایف آئی اے نے صحافی کی جانب سے دی گئی درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی اور وکیل نے کہا کہ ملزم نے دانستہ طور پر ریاستی اداروں اور حکومتی شخصیات کے خلاف مواد جاری کیا۔

سیشن عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد صحافی کی درخواست ضمانت خارج کردی اور وہ بدستور عدالتی ریمانڈ میں رہیں گے۔

قبل ازیں ضلع کچہری کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے بھی صحافی اظہارالحق کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی۔

لاہور کی ضلع کچہری میں 17 جنوری کو جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر عرفات نے صحافی اظہارالحق کے جسمانی ریمانڈ کے لیے ایف آئی اے کی درخواست پر سماعت کی تھی جہاں ایف آئی اے نے الزامات دہرائے تھے۔

مزید پڑھیں:ڈان دفتر کے گھیراؤ کےخلاف صحافیوں کا مختلف شہروں میں احتجاج

ایف آئی اے کے وکیل نے کہا تھا کہ ملزم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر ریاست مخالف مواد اور پاکستان کا توہین آمیز ایڈیٹڈ قومی ترانہ شیئر کیا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) اور لاہور پریس کلب کے عہدیداروں نے پریس کلب کے رکن اور صحافی اظہارالحق کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

مذمتی بیان میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کی جانب سے صحافی کی گرفتاری آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کے مترادف اور غیر آئینی اقدام ہے۔

پریس کلب کے عہدیداران نے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ گرفتار صحافی کو فی الفور رہا کیا جائے اور ایف ائی اے اپنے غیر آئینی اقدام کی معافی مانگے ورنہ ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں