لاہور: 'ریاست مخالف مواد' پوسٹ کرنے والے صحافی کا جسمانی ریمانڈ

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2020
صحافی اظہارالحق اپنے وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ کے ہمراہ — فوٹو: رانا بلال
صحافی اظہارالحق اپنے وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ کے ہمراہ — فوٹو: رانا بلال

لاہور کی مقامی عدالت نے 'فیس بک' پر مبینہ طور پر ریاست مخالف مواد شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔

لاہور کی ضلع کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر عرفات نے صحافی اظہارالحق کے جسمانی ریمانڈ کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست پر سماعت کی۔

ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ ملزم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر ریاست مخالف مواد اور پاکستان کا توہین آمیز ایڈیٹڈ قومی ترانہ شیئر کیا۔

انہوں نے کہا کہ سرچ وارنٹ کے ساتھ ملزم کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا لیکن ملزم صحافی سے مزید تفتیش درکار ہے، لہٰذا ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کی جائے۔

صحافی کے وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سے فون کی برآمدگی ہو چکی ہے اس لیے ان کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2019 بھی پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کیلئے پریشان کن رہا!

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے اظہارالحق کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہے۔

عدالت نے صحافی اظہارالحق کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا، انہیں 20 جنوری کو دوبارہ پیش کیا جائے گا۔

عدالت نے ایف آئی اے سے اگلی سماعت میں ملزم سے ہونے والی تفتیش سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی۔

واضح رہے کہ اظہارالحق کے خلاف پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 11 اور 20 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

لاہور پریس کلب کا مذمتی بیان

لاہور پریس کلب کے عہدیداران نے پریس کلب کے رکن اور صحافی اظہارالحق کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

مذمتی بیان میں کہا گیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے صحافی کی گرفتاری آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کے مترادف اور غیر آئینی اقدام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 5 برس کے دوران 33 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

پریس کلب کے عہدیداران نے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ گرفتار صحافی کو فی الفور رہا کیا جائے اور ایف ائی اے اپنے غیر آئینی اقدام کی معافی مانگے ورنہ ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج ہوں گے۔

خیال رہے کہ دیگر سالوں کی طرح سال 2019 بھی پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کے لیے پریشان کن رہا تھا اور گزشتہ سال بھی کئی صحافیوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں