چین میں کورونا وائرس کی نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اب تک 6 ہزار کے قریب افراد اس سے متاثر جبکہ 132 اموات ہوچکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں میں اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش بھی پائی جاتی ہے جبکہ فضائی کمپنیوں کے جانب سے احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں۔

رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں چند پروازوں کے مسافروں کو گرم کھانے، کمبل، اخبارات دینے سے انکار کیا جارہا ہے تاکہ فضائی عملے اور مسافروں کو اس وائرس سے بچایا جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق تائیوان کی چائنا ائیرلائنز نے مسافروں میں پانی کی بوتلیں اپنے ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ قابل استعمال اشیا کا استعمال محدود کرکے ان کی جگہ ڈسپوزایبل اشیا کو دی جارہی ہے۔

چائنا ائیرلائنز اور اس کی ذیلی شاخ مینڈرین ائیرلائنز نے پیر سے گرم کھانے مسافروں کو فراہم کرنا بھی روک دیا ہے جبکہ نیپکن کو کاغذی تولیے سے بدل دیا ہے، اسی طرح کمبل، تکیے، تولیے، جریدے اور اخبارات کی فراہمی بھی روک دی ہے۔

دوسری جانب ہانگ کانگ کی کیتھی پیسیفک ائیرویز لمیٹڈ نے بدھ کو کہا ہے کہ مختلف آسائشات جیسے گرم تولیے، کمبل اور جریدے اب چین جانے اور آنے والی پروازوں کے دوران فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

تھائی ائیرویز کی جانب سے طیاروں کے مسافر کیبن اور کاک پٹ میں جراثیم کش اسپرے بھی کیے جارہے ہیں، چین کے بعد 2019 ناول کورونا وائرس کے سب سے زیادہ 14 مریض تھائی لینڈ میں سامےن آئے ہیں۔

سنگاپور ائیرلائنز نے چین جانے والی پروازوں میں موجود عملے کو ماسکس پہننے کی اجازت دی ہے جبکہ امریکی فضائی کمپنیاں ہینڈ سینیٹیائزر وائپس فراہم کررہی ہیں۔

چین کے عام شہری بھی اس وائرس سے بچنے کے لیے حیران کن احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جس میں لوگوں نے اہم ائیرپورٹس پر پانی کی بڑی بوتلیں چہرے پر ماسک کے طور پر پہنے نظر آرہے ہیں۔

ٹوئٹر فوٹوز
ٹوئٹر فوٹوز

کچھ تصاویر چین اور ہانگ کانگ کی ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ کینیڈا کے شہر وینکوور میں بھی ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔

ایسا مانا جارہا ہے کہ چینی ڈاکٹروں اور عملے کی کمی کے باعث لوگوں میں یہ غیرمعمولی رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔

چین کے شہر ووہان (جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا)، کے ہسپتالوں کے ایک رضاکار کے مطابق جنوری کے شروع میں طبی عملے میں شامل افراد مریضوں کے علاج کے دوران بیمار ہوئے مگر عملے کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں تاخیر کی گئی اور لوگوں نے خود اپنے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کردیں۔

رضاکار کے مطابق طبی عملے کے کچھ افراد کچرے کے تھیلے اور پانی کی بوتلیں کاٹ کر انہیں عارضی گاﺅن اور ماسکس کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

رضاکار کی وضاحت تو قابل فہم ہے مگر یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ عام لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں کیونکہ پلاسٹک کی بوتلوں کے نیچے انہوں نے اضافی فیس ماسکس بھی پہن رکھے ہیں۔

ٹوئٹر فوٹو
ٹوئٹر فوٹو

بیجنگ سے تعلق رکھنے والے وکیل چین کیوشی نے ایک ٹوئٹ میں ایک شخص کی تصویر شیئر کی جس میں وہ پانی کی بوتل اور ایک ماسک پہنے ووہان کے ایک ہسپتال میں موجود ہے۔

بی بی سی کے صحافی ایڈورڈ لارنس نے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی فوٹو شیئر کی جس میں وہ پلاسٹک بیگ کو سر پر پہنے ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں