بےنظیر سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری ملازمین کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2020
وزیر عظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہمذکورہ معاملہ خالصتاً دھوکا دہی کا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر عظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہمذکورہ معاملہ خالصتاً دھوکا دہی کا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ حکومت نے دھوکا دہی سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے فائدہ اٹھانے والے 2 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو منتقل کردیے۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت نے بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے اور رقوم کی وصولی کے لیے تمام چیف سیکریٹریز اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھی مراسلے لکھے ہیں۔

مزیدپڑھیں: حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8لاکھ افراد کو ہٹانے کا دفاع

انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی کا مقصد مستحق اور ضرورت مندوں کو مالی تعاون فراہم کرنا تھا۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ ایف آئی اے سے مذکورہ سرکاری افسران اور ان لوگوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا جنہوں نے بی آئی ایس پی فنڈز کے حصول کے لیے سرکاری ملازمین کی مدد کی کیونکہ یہ فنڈز وفاقی بجٹ سے لیا گیا تھا۔

وزیر عظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ مذکورہ معاملہ خالصتاً دھوکا دہی پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرائے جائیں گے لیکن افسوس ہے کہ غریبوں کے لیے فنڈز میں سے سرکاری ملازمین نے کرپشن کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ بی آئی ایس پی فنڈ سے ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین یا ان کی شریک حیات نے فائدہ اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کہتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم نہیں کرنے دیں گے، بلاول بھٹو

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 1 لاکھ 40 ہزار افراد میں سے ایک بڑا حصہ 1 سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین پر مشتمل تھا جبکہ دیگر 2 ہزار 37 ملازمین گریڈ 17 سے 22 کے افسران تھے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری افسران نظام اور اس کے ضوابط کی شفافیت میں فقدان کی وجہ سے برسوں سے فائدہ اٹھاتے رہے۔

معاون خصوصی نے بتایا کہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی جن شریک حیات نے بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھایا ان میں سے 9 آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 40 تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پروگرام سے بلوچستان میں 554، خیبر پختونخوا میں 342، پنجاب میں 101 اور سندھ میں 938 افسران یا ان کی شریک حیات نے فائدہ اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ گریڈ 1 سے 16 کے مجموعی طور پر 39 ملازمین اور گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے 4 افسران جنہوں نے خود بی آئی ایس پی کے لیے کام کیا، پروگرام سے فائدہ اٹھایا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8 لاکھ 20 ہزار افراد کا نام نکالنے کا فیصلہ

شہزاد اکبر نے بتایا کہ ان ملازمین کو برخاست کردیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کے ملازمین میں یہ تعداد 48 تھی۔

انہوں نے بلوچستان میں محکمہ تعلیم کے متعدد افسروں کے نام کا بھی انکشاف کیا جن کی دو بیویاں تھیں اور دونوں ہی بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھا رہی تھیں۔

واضح رہے کہ 25 دسمبر کو وفاقی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے 8 لاکھ 20 ہزار 165 افراد کو 'غیرمستحق' قرار دیتے ہوئے ڈیٹابیس سے ان کا نام نکالنے کی منظوری دی گئی تھی۔

اس سے قبل بی آئی ایس پی کے دیٹابیس میں تبدیلی کابینہ میں کچھ اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے ان تحفظات کے بعد سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ پروگرام سے اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والوں کو فائدہ پہنچ رہا جبکہ جو لوگ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے ہیں وہ نظرانداز ہورہے ہیں۔

اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ دنیا کہتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم نہیں کرنے دیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں