چین سے پاکستانیوں کو نہ نکالنا ہی سب کے لیے بہتر ہے، معاون خصوصی صحت

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
چین میں کورونا وائرس سے اب تک 170 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، معاون صحت ظفر مرزا — فوٹو: ڈان نیوز
چین میں کورونا وائرس سے اب تک 170 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، معاون صحت ظفر مرزا — فوٹو: ڈان نیوز

معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس چین سمیت 15 ممالک میں پھیل چکا ہے جبکہ اس وقت چین میں موجود ہمارے پیاروں کے حق میں یہ سب سے بہتر ہے کہ ان کو وہاں سے نہ نکالا جائے۔

اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 'صحت عامہ کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، پوری دنیا کورونا وائرس سے پریشان ہے اور یہ وائرس چین سمیت 15 ممالک میں پھیل چکا ہے، جبکہ ان ممالک کے جن افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی انہوں نے ماضی قریب میں چین کا سفر کیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'چین میں کورونا وائرس سے اب تک 170 افراد ہلاک ہوچکے ہیں تاہم بیجنگ حکومت نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی اٹھائے ہیں جبکہ پاکستان میں کسی مریض میں اب تک کورونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن چین میں 4 پاکستانی طلبہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔'

ان کا کہنا تھا کہ چین میں کرونا وائرس کا بہترین علاج ہو سکتا ہے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا سے متاثرہ چین سے شہریوں کو واپس نہ بلانے کی سفارش کی ہے، جس کی وجہ یہی ہے کہ چینی حکومت نے جتنے بہتر طریقے سے اس وائرس کو ووہان تک محدود کیا ہوا ہے اگر ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیں تو یہ وبا پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 'ہم اس معاملے پر چین کے ساتھ کھڑے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہاں کی حکومت نے وائرس کی روک تھام کے لیے جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے وہ بہترین ہے اور ہمارا یہ خیال ہے کہ ایک ذمہ دار حکومت اور ہمسایہ ملک ہونے کے طور پر یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان کے ساتھ چلیں اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں بھی پوری کرتے ہوئے اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جائیں۔'

مزید پڑھیں: ووہان میں پھنسے پاکستانی طلبہ کا حکومتِ پاکستان سے مدد کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ 'ووہان میں موجود پاکستانیوں کی حکومت کو بھی اتنی ہی فکر ہے جتنی ان کے اہلخانہ کو ہے، لیکن ہم عجلت میں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے، حکومت یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ ووہان میں موجود طلبہ اور دیگر پاکستانیوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنائے جس کے لیے دفتر خارجہ اور بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ ان پاکستانیوں سے رابطے میں ہے، جبکہ اس وقت وہاں موجود ہمارے پیاروں کے حق میں یہ سب سے بہتر ہے کہ ان کو وہاں سے نہ نکالا جائے۔'

واضح رہے کہ چین میں موجود پاکستانی طلبہ نے مختلف ویڈیوز میں حکومت پاکستان سے ایک مرتبہ پھر مدد کی اپیل کی اور پاکستان واپس لے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ہوبے یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس میں زیرِ تعلیم طلبہ نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں بتایا کہ ان کی یونیورسٹی شانگ یانگ کے علاقے میں واقع ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر ووہان سے 2 سے 3 گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والے طالبہ نے کہا کہ جو وائرس ووہان سے شروع ہوا وہ اس شہر تک پہنچ چکا ہے، ویسے تو پاکستان میں عموماً جو بھی خبر آرہی ہے اس میں ووہان میں انفیکشن سے متعلق بتایا جارہا ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہمارا شہر اور یونیورسٹی بھی متاثر ہے۔

طالبہ نے کہا کہ یہاں کے طلبہ کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ووہان میں طلبہ موجود ہیں جبکہ دور دور تک ہماری بھی کوئی امداد نہیں کی جارہی۔

ایک اور ویڈیو میں چین کے صوبہ ہوبے میں موجود پاکستانی طلبہ نے بتایا کہ وہ ووہان سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جنگ ژو شہر میں مقیم ہیں اور اب ان کے شہر میں بھی کورونا وائرس شدت اختیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پاکستانی طلبہ کے وائرس سے متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ جلد از جلد یہاں سے ریسکیو کیا جائے تاکہ اس لاعلاج بیماری سے بچ سکیں۔

اس سے قبل ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا تھا کہ حکومت چین میں موجود پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔

عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس جیسے چیلنج کا سامنا کرنے والے ملک چین کی ہر ممکن تعاون کے لیے پاکستان تیار ہے، اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی اقدامات قابل تحسین ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں 4 پاکستانی طلبہ میں کورونا وائرس کی تصدیق

گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے چین کے شہر ووہان میں موجود 4 پاکستانی طلبہ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ چین میں 28 سے 30 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں بڑی تعداد طلبہ کی ہے جو مختلف صوبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ وائرس کے مرکز شہر ووہان میں 500 کے قریب پاکستانی طلبہ ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل چینی شہر ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے وائرس کے خوف اور خوراک کی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فوری مدد کی درخواست کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی وجہ سے ہم سب بہت خوف و ہراس کا شکار ہیں، ایک جانب یہ خوف ہے اور دوسری جانب ہمیں خوراک کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے لہٰذا ہماری حکام بالا سے گزارش ہے کہ ووہان میں موجود تمام پاکستانی طلبہ کو کسی بھی طرح یہاں سے نکالا جائے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ فرانسیسی اور امریکی سفارتخانے چین میں موجود اپنے شہریوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کو ووہان سے نکال سکیں اور ہمیں بھی اسی طرح کی مدد درکار ہے تاکہ آپ لوگ ہمیں یہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز (وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔

عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے۔

سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: چین میں مقیم پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں، دفتر خارجہ

کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا دوا دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔

مگر سال 2020 کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین میں اس وائرس کی ایک نئی مہلک قسم دریافت کی جسے نوول کورونا وائرس یا این کوو کا نام دیا گیا۔

عام طور پر یہ وائرس اس سے متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں