عمران فاروق قتل کیس: عینی شاہدین سمیت مزید 5 گواہوں کے بیانات قلمبند

04 فروری 2020
عدالت نے 2 برطانوی گواہوں محمد اکبر اور معین الدین شیخ کو 5 فروری کو طلب کر لیا — فائل فوٹو
عدالت نے 2 برطانوی گواہوں محمد اکبر اور معین الدین شیخ کو 5 فروری کو طلب کر لیا — فائل فوٹو

انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں 3 عینی شاہدین سمیت مزید 5 گواہان کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات قلمبند کر لیے۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں تینوں گرفتار ملزمان محسن علی سید، خالد شمیم اور معظم علی بھی موجود تھے۔

عدالت نے 7 برطانوی گواہوں کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا، جن میں سے 5 کے بیانات قلمبند کیے جاسکے۔

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے برطانوی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے، اس موقع پر برطانوی قانونی ٹیم کے ارکان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عمران فاروق کے قتل کے دو عینی شاہدین گواہوں کا وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا، دونوں برطانوی خواتین گواہ لارا ہیکک اور ایلیسن کوسنر مقتول عمران فاروق کے پڑوس میں رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق کی بیوہ کا عدالت میں بیان، انصاف کی فراہمی کا مطالبہ

اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے گواہ لارا ہیکک نے کہا کہ میں نے پولیس کو وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا، میں نے 5 بجکر 25 منٹ پر اپنے پڑوس میں ایک شخص کو اینٹ سے وار کرتے دیکھا جس کے بعد پولیس کو کال کر کے جلد آنے کا کہا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ہمسائے کو زمین پر گرا پایا، میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ میرے پڑوسی پر کتنے لوگوں نے حملہ کیا مگر ایک شخص کو میں نے دیکھا، حملہ آور ایشین تھا جس کے بال سیاہ تھے، اس سے زیادہ اس کے بارے میں نہیں بتا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ایک سے دو منٹ میں ہوا۔

گواہ لارا ہیکک نے کہا کہ جب اینٹ سے وار کیا گیا تو میں نے متاثرہ شخص کی آواز سنی، حملہ آور کے قد کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی مگر وہ طویل قامت اور تقریباً چھ فٹ کا تھا۔

وقفے کے بعد قتل کے تیسرے گواہ مکس ملین ڈیوس نے بیان قلمبند کرایا۔

انہوں نے کہا کہ شام کے وقت میں نے دیکھا کہ دو افراد نے ڈاکٹر عمران فاروق کو دبوچ رکھا ہے، ایک بندے نے ڈاکٹر عمران فاروق کو پکڑ رکھا تھا اور ایک مار رہا تھا۔

سماعت کے دوران انٹیلی جنس اینالسٹ جوناتھن بانڈ، پولیس افسر پال ہال مین اور ڈیٹیکٹو کانسٹیبل جیمز لنچ کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی

وکلا صفائی محمد بخش مہر اور ذیشان ریاض چیمہ کو گواہوں پر جرح کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔

عدالت نے 2 برطانوی گواہوں محمد اکبر اور معین الدین شیخ کو 5 فروری کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مقتول رہنما عمران فاروق کی بیوہ نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ نے بیان ریکارڈ کرانا شروع کروایا تو وہ بیان حلفی دیتے وقت آبدیدہ ہوگئیں، اس پر جج شاہ رخ ارجمند نے کہا کہ آپ نے حوصلے اور صبر سے اپنا بیان ریکارڈ کرانا ہے۔

عمران فاروق قتل کیس

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: برطانوی پولیس نے انتہائی اہم شواہد جمع کرادیے

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو 3 مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔

اسی سال 28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: بانی متحدہ کی بذریعہ اشتہار عدالت طلبی سے متعلق رپورٹ جمع

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

علاوہ ازیں 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو اکتوبر کے مہینے تک ٹرائل مکمل کرنے کا کہا حکم دیا تھا تاہم استغاثہ کی جانب سے عدالت سے متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی، جس کی وجہ برطانوی حکومت کا شواہد فراہم کرنے میں رکاوٹ بننا بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ملزم کو سزائے موت سنا دی جائے گی۔

تاہم گزشتہ سال برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، 3 تفتیش کار اور دیگر ماہرین و عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں