عمران فاروق قتل کیس میں بانی متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کی اشتہار کے ذریعے عدالت طلبی سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی عدالت ( اے ٹی سی ) اسلام آباد میں جمع کرادی گئی۔

یہ رپورٹ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کے پروسیکیوٹر کی جانب سے جمع کرائی گئی، جس میں وزارت داخلہ کا این او سی اور کمپنی کے خط اور رسید کو بھی حصہ بنایا گیا۔

ایف آئی اے پروسیکیوٹر خواجہ امتیاز کے مطابق جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بانی متحدہ کے خلاف برطانوی اور امریکی اخبارات میں اشتہار شائع ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جن اخبارات میں اشتہار شائع کیا جائے گا ان میں برطانوی اخبار گارڈین اور امریکی اخبار نیو یارک ٹائم شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: تین ملزمان کے ریڈ وارنٹ کے اجرا کی منظوری

خواجہ امتیاز کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے 22 دسمبر کو اشتہاری کمپنی سے رابطہ کیا گیا تھا اور 5 جنوری کو ان کا جواب موصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اشتہار کی مد میں کمپنی کو 13 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہے اور اس حوالے سے جلد کمپنی کو فنڈز جاری کردیے جائیں گے۔

خواجہ امتیاز نے کہا کہ اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد مرکزی ملزم کے خلاف جمع ہوگا۔

اس موقع پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے خواجہ امتیاز کو کہا کہ آپ نے اشتہار میں صرف نائن زیرو کا پتہ لکھا ہے، اشہتار میں مفرور ملزم کا برطانیہ کا پتہ بھی شامل کیا جائے۔

عدالت نے ایف آئی اے کو کیس میں چالان جلد جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے گرفتار ملزمان کے ریمانڈ میں 24 جنوری تک توسیع کردی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 29 دسمبر 2017 کو عمران فاروق قتل کیس میں وزارت داخلہ نے تین ملزمان کے ریڈ وارنغ کے اجراء کی منظوری دی تھی۔ جن تین ملزمان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی منظوری دی گئی تھی ، ان میں انور حسین، افتخار حسین اور کاشف خان کامران شامل تھے جبکہ ان کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: عمران فاروق قتل کیس میں نئی پیش رفت

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔

ایف آئی کی جانب سے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی گئی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔ ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: معظم علی رینجرز کے حوالے

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں