اپوزیشن سینیٹ میں ٹیکس قوانین کا ترمیمی بل روکنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن وہ پہلی رکن تھیں جنہوں نھے بل پر اعتراض کیا —فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن وہ پہلی رکن تھیں جنہوں نھے بل پر اعتراض کیا —فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: ایوان بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن جماعتیں ٹیکس قوانین میں ترمیم کا بل روکنے میں ناکام ہوگئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بل پر اپوزیشن کی جانب سے تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور ایوان میں رائے شماری سے اس کے قابل قبول ہونے کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد ٹیکس لا امینڈمنٹ بل2020 کی نقل بالآخر وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے ایوان میں پیش کردی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن وہ پہلی رکن تھیں جنہوں نے بل پر اعتراض کیا کہ یہ کوئی بل نہیں بلکہ آرڈیننس ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہیں تو آپ کس طرح آرڈیننس نافذ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تاجروں کو فوائد، کرنسی اسمگلرز کو سزا دینے کیلئے ٹیکس قوانین میں ترمیم

اس پر سینیٹر اعظم سواتی نے بتایا کہ آرڈیننس 28 دسمبر 2019 کو نافذ کیا گیا تھا جب پارلیمان کا اجلاس جاری نہیں تھا بعدازاں اس آرڈیننس کو منی بل کے طور پر قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جہاں سے یہ سینیٹ میں پہنچا۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفرالحق نے کہا تھا کہ اپوزیشن اس بل کو مسترد کرنا چاہتی ہے جس پر اعظم سواتی نے اصرار کیا کہ بل کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار میں کوئی خامی نہیں۔

جس پر قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے آئین کی دفعہ 89 (3) (اے) پڑھ کر سنائی کہ ’قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے آرڈیننس کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل سمجھا جائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جس کے بعد 30 جنوری کو یہ سینیٹ بھجوایا گیا۔

مزید پڑھیں:ٹیکس کے تمام معاملات نیب نہیں ایف بی آر دیکھے گا، شہزاد اکبر

شبلی فراز کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ بل تجاویز کے لیے ایوان کی کمیٹی برائے خزانہ میں بھیجا جائے گا جو قومی اسمبلی کی پابند نہیں۔

تاہم اس پر راجا ظفر الحق نے کہا کہ کچھ کنفیوژن ہے اور چیئرمین سینیٹ سے مطالبہ کیا کہ ایوان کو بل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اسے ایوان میں پیش کرنے کے حوالے سے کسی سوال کی گنجائش نہیں لہٰذا اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ اگر حکومت کسی قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے تو وہ بتایا جائے۔

اس دوران شیری رحمٰن نے بل کے عنوان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ دستاویز ایک بل ہے لہٰذا ایوان کو اس کا فیصلہ کرنے دیا جائے کہ یہ قابلِ قبول ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے ’مفاد عامہ‘ کے 8 آرڈیننس کی منظوری دے دی، وزیر قانون

تاہم شبلی فراز نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اپوزیشن لیڈر کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں ’شاید وہ اپنی عددی اکثریت کی وجہ سے گھمنڈ میں ہیں‘۔

اعظم سواتی نے بحث کو طول دینے پر ایوان کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’میں چیئر کی اتھارٹی چیلنج نہیں کررہا لیکن یہ سراسر غلط ہے‘۔

بعدازاں مذکورہ بل ایوان میں پیش کر کے کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوادیا گیا جو 10 روز میں اپنی رپورت جمع کروائے گی جبکہ اپوزیشن رہنما چیختے رہ گئے کہ یہ غلط طریقہ کار ہے اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں