عدالت میں چیونگ گم چبانا 'وقار کی تضحیک' کے ساتھ 'پولیس کے حوصلے پست کرتی ہے'، جج

اپ ڈیٹ 06 فروری 2020
مذکورہ جج نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروادی—فائل فوٹو: رائٹرز
مذکورہ جج نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروادی—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج محمد عدنان نے جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ عدالت میں چیونگ گم چبانا عدالت کے وقار کی تضحیک اور پولیس کے حوصلے پست کرتی ہے۔

واضح رہے کہ جج عدنان نے 31 جنوری کو کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 498 کے تحت ایک شخص یاسر عرفات کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی تھی کیونکہ یاسر عرفات کمرہ عدالت میں چیونگ گم چبا رہے تھے۔

بعد ازاں 3 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ممبر انسپیکشن ٹیم (ایم آئی ایچ) نے مذکورہ معاملے پر جج عدنان سے رپورٹ طلب کی تھی۔

مزید پڑھیں: بیوروکریٹس کی ترقی کے نئے اصول اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج

عدالت میں جمع کروائی گئی تحریری رپورٹ میں جج نے کہا کہ یہ عدالت کے اصول اور طریقوں میں نہیں کہ کمرہ عدالت میں کسی ملزم کو چیونگ گم چبانے کی اجازت دی جائے۔

جج کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مداخلت کے عمل عدالت کے اختیار کی تضحیک کرنے اور ان سے تفتیش کرنے کے لیے پولیس حکام کے حوصلے پست کرنے کے مترادف ہے۔

جج کے مطابق گرفتاری سے قبل ضمانت کے لیے ایک ملزم کو رضاکارانہ/غیرمشروط طور پر (اپنی عادت وغیرہ کے لیے شرائط کے بغیر) اضافی معمولی رعایت ہونے کی وجہ سے خود کو سرینڈر کرنا ہے کیونکہ وہ کسی قابل دست اندازی جرم میں ملوث ہے جس میں پولیس کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کا حق ہے۔

جج نے مزید کہا کہ جب ملزم کو عبوری ضمانت میں شامل کیا گیا تھا تو اس کی شرائط میں شامل تھا کہ درخواست گزار جب بھی پولیس کو ضرورت ہوئی تفتیش میں شامل ہوگا اور کیس کے حتمی طور پر خارج ہونے تک وہ باقاعدگی سے عدالت میں پیش ہوگا۔

رپورٹ میں 31 جنوری کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی کال پر ملزم غیر حاضر تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی جانب سے کوئی اطلاع دی گئی، پھر بھی انصاف کے تناظر میں اس کے معاملے کو ایک طرف رکھ دیا گیا۔

جج کے مطابق دوسری کال پر جب وہ پیش ہوئے تب ان کا کیس چل رہا تھا اس وقت وہ اس طرح سے چیونگ گم چبا رہا تھا جس سے توجہ حاصل ہوئی اور عدالتی عمل کے دوران خلل پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کو ایک شوکاز (اظہار وجوہ کا) نوٹس جاری کرکے یا اس کی ضمانت کی درخواست مسترد کرکے معاملے کو سنبھالا جاسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان بنیادوں پر ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کرنے سے ایک ملزم کی آزادی کم نہیں ہوئی لیکن اسے دیگر متعلقہ فورم سے ریلیف حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کو عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کی قیمت پر کسی بھی صورت میں کمرہ عدالت کے اندر چیونگم یا کسی اور عادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حکم پاس کرتے وقت عدالت کے آداب/اصول کا کلیدی عنصر تھا تاکہ عام طور اور خاص طور پر عدالت میں پیش ہونے والے لوگ ان اصولوں کو سیکھ سکیں اور دوسروں کو اس کے بارے میں بتا سکیں۔


یہ خبر 06 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں