'سفاکانہ' قانون کے تحت مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ کی حراست میں توسیع

07 فروری 2020
محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی کے سابق وزرائے اعلیٰ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، سمیت 4 سیاسی رہنماؤں کی حراست میں توسیع کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی جانب سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ہی سیاسی قیادت سمیت سابق وزرائے اعلیٰ کو حراست میں لے لیا تھا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سری نگر میں موجود حکام نے بتایا کہ حالیہ حراست کا حکم 'سفاکانہ' پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت جاری کیا گیا، جس کے تحت بغیر کسی الزام کے 2 سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گرفتار

حکام کا کہنا تھا کہ حراست میں موجود افراد میں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور مقامی پارٹی رہنما علی محمد ساگر اور سرتاج مدنی شامل ہیں۔

دوسری جانب محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے اپنی والدہ کی حراست کی تصدیق کی۔

انہوں نے لکھا کہ ایک ایسی حکومت سے سفاکانہ پی ایس اے کے طمانچے کی ہی امید ہے جس کے دور میں 9 سالہ بچی پر 'بغاوت' کا مقدمہ درج کیا جائے، سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس غلط عمل پر تماشائی بنے رہیں گے، کیا یہ قوم کھڑی ہوگی؟

مزید برآں ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں بھارتی حکومت کے غیرقانونی عمل پر سوال اٹھایا جبکہ اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ کو 'اشتعال انگیز' بیان پر جیل نہیں بھیجا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ صرف اس لیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جان بوجھ کر خود کو بھارت سے جوڑتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں یہ بھارت ہے، پیغام صاف ہے کہ بی جے پی پر تنقید خود کے لیے خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سیاست دانوں کو بنیادی طور پر جس قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید کی اجازت دیتا ہے اور ان کی نظربندی کی مدت ختم ہونے والی تھی۔

ادھر ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانون 6 ماہ سے زیادہ حراست میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا جس کے باعث انہیں رہا کرنے یا پی ایس اے کے تحت مقدمہ دائر کرنا پڑا۔

ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ کئی دیگر مقامی رہنما جنہیں احتیاطی طور پر حراست میں لیا گیا تھا ان کے 6 ماہ مکمل ہوگئے ہیں اور انہیں پی ایس اے کے تحت رکھے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بھارت کی وزارت داخلہ نے اپنی پارلیمنٹ کے سامنے جواب میں بتایا تھا کہ گزشتہ برس اگست سے مقبوضہ کشمیر میں پی ایس اے کے تحت 389 افراد پر پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا۔

انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے کچھ افراد کو نظربند جبکہ دیگر کو قید کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پی ایس اے کو 'لاقانونیت' قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی بیٹی نظر بند، 3 نوجوان شہید

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا، ساتھ ہی وہاں کرفیو اور سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی معطل کردیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج تعینات کرتے ہوئے حریت قیادت سمیت دیگر سابق وزرائے اعلیٰ کو نظربند کردیا تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام معطل کرنے پر نریندر مودی کی حکومت پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں 25جنوری کو مقبوضہ وادی میں لمیٹڈ موبائل ڈیٹا سروسز اور انٹرنیٹ کو جزوی طور پر بحال کیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود اب بھی وہاں مواصلاتی رابطوں میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں