بھارت: مہاراشٹرا میں متنازع قانون کو غیر موثر بنانے کیلئے قانونی راستے پر غور

اپ ڈیٹ 10 فروری 2020
بھارت کی 13 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے این پی آر کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے—فائل فوٹو: اے پی
بھارت کی 13 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے این پی آر کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے—فائل فوٹو: اے پی

بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ انیل دیش مکھ نے کہا ہے کہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متنازع قانون نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن (این پی آر) پر عمل نہ کرنے کے لیے قانونی راستے تلاش کررہے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق انیل دیش مکھ نے کہا کہ مہا وکاس آگادی حکومت ریاست میں این پی آر کے اطلاق کو غیر موثر بنانے کے لیے قانونی طریقوں پر غور کررہی ہے۔

مزیدپڑھیں: بھارت: ہندو قوم پرست نے 'یہ لو آزادی' کہہ کر مظاہرین پر فائرنگ کردی

انہوں نے کہا کہ ایک درجن سے زائد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے شہریت کے منتازع قانون این پی آر پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

شہریت (ترمیمی) قانون (این آر سی) کی مخالفت کے حوالے سے ملک گیر احتجاج کے پس منظر میں انیل دیش مکھ نے کہا کہ مہاراشٹرا میں کسی کو بھی ان کی 'شہریت' کی حیثیت سے ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں انہوں نے مظاہرین سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیں کیونکہ ریاست میں این پی آر اور این آر سی کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ بھارت کی 13 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے این پی آر کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

کانگریس کے زیر اقتدار مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، پنجاب، پڈوچیری، جھاڑکھنڈ، مغربی بنگال اور کیرل میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلسل احتجاج جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: 'غیر مسلم' تارکین وطن کو شہریت دینے کا ترمیمی بل منظور

علاوہ ازیں ریاست کے متعدد سابق بیوروکریٹس نے بھی متنازع قانون کی مخالفت کی۔

103 دستخط کنندگان میں شامل سابق آئی پی ایس افسر میران بورونکر نے سوشل میڈیا پر کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے حق میں مہم چلانے کے بجائے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھارت اور اس کے شہریوں کو غربت سے نکالنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے متنازع قانون کے اطلاق سے قبل ہی سارے بھارت میں نریندر مودی اور متنازع قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

اس دوران نریندرمودی کے مسلح حامیوں نے پر امن مظاہرین پر فائرنگ بھی کی۔

یاد رہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ پیش آیا تھا جس میں نامعلوم ملزمان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے گیٹ پر فائرنگ کردی تھی۔

دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار ملزمان نے یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 5 کے باہر فائرنگ کی تاہم اس سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔

مزیدپڑھیں: مودی کا ‘اونچی ذات کے غریبوں’ کیلئے کوٹہ مختص کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ یکم فروری کو شاہین باغ کے علاقے میں ایک اور مسلح نوجوان نے فائرنگ کی تھی جسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

نئی دہلی کے جامعہ نگر میں شاہین باغ میں ایک مسلح نوجوان نے فائرنگ کی تاہم کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔

سوشل میڈیا میں زیر گردش ویڈیو میں واضح طور پر سنا گیا کہ پولیس کی حراست میں موجود نوجوان چلا رہا ہے کہ 'ہمارے دیش میں اور کسی کی نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی۔'

قبل ازیں 30 جنوری کو نئی دہلی میں ایک ہندو قوم پرست نے انٹرنیٹ پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ پر فائرنگ کرکے ایک طالب علم کو زخمی کردیا تھا۔

انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتبہ شخص نے نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر متنازع قانون کے خلاف سراپا احتجاج طلبہ پر یہ کہہ کر فائرنگ کردی کہ 'یہ لو آزادی' اور 'نئی دہلی پولیس زندہ باد'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت مظاہرے: جامعہ ملیہ کے بعد شاہین باغ میں بھی مسلح نوجوان کی فائرنگ

پولیس نے فائرنگ کرنے والے ہندو قوم پرست نوجوان کو گرفتار کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک (بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان) سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس بل کی منظوری کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی اہم شہروں میں انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟

شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں