افغان امن عمل میں پیش رفت: ’طالبان کی پُرتشدد واقعات میں کمی کی پیشکش‘

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020
مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے بتایا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کے معاہدے پر ہونے والے مذاکرات میں ’قابل ذکر پیش رفت‘ ہوئی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پوسٹ مائیک پومپیو کی فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے تشدد میں نمایاں اور پائیدار کمی لانے سے متعلق ایک پیشکش کی ہے۔

افغان صدر نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور میں خوش ہوں کہ امن سے متعلق ہمارے اصولی مؤقف کے نتائج ملنا شروع ہوگئے ہیں، ہمارا بنیادی مقصد بے حس خونریزی کا خاتمہ ہے۔

طالبان ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکا اور طالبان کے مذاکراتی وفود بدھ (12 فروری) کو قطر میں ملاقات کریں گے۔

افغان اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مشروط معاہدے کی منظوری دی تھی۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کی ملا برادر سمیت طالبان کی سینئر قیادت سے ملاقات

نیویارک ٹائمز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ صرف اسی صورت میں معاہدے کی منظوری دیں گے جب طالبان تشدد میں کمی پر قائم رہیں گے۔

ذرائع کے مطابق طالبان نے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ارادوں اور مقاصد سے دیکھا جائے تو یہ ایک جنگ بندی ہوگی لیکن اسے مختلف ’پیچیدگیوں‘ کی وجہ سے یہ نام نہیں دیا جاسکتا۔

یاد رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امن مذاکرات اور معاہدوں کے لیے 2 فروری کو کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔

افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی نمائندے نے اشرف غنی کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی مگر وہ طالبان سے تنازع کو کم کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔

بعدازاں 10 فروری کو زلمے خلیل زاد نے ملا برادر اور طالبان کے سیاسی امور کے نائب سربراہ سے قطر میں ملاقات کی تھی۔

اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ ‘ملا محمد فاضل، ملا خیراللہ خیرخوا اور مولوی امیر خان متقی سمیت طالبان کی دیگر سینئر قیادت ملاقات میں موجود تھی’۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکی نمائندے سے ملاقات کے دوران قطر کے وزیر خارجہ بھی موجود تھے جس میں امن عمل سمیت مستقبل میں لیے جانے والے اہم اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی نمائندہ خصوصی امن مذاکرات کے لیے کابل پہنچ گئے

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے جاری مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو 'مردہ' قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ ماہ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے 7 سے 10 روز کے مختصر سیز فائر کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ کیا جاسکے تاہم اس پیشکش کی تفصیلات کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

امریکا اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغانستان کے خصوصی فورسز کی بمباری، جس میں کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے، پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند افغان حکام کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔

2018 کے بعد امریکی فضائی حملوں میں اضافے سے تنازع میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں امریکی ایئر فورس نے افغانستان میں 7 ہزار 423 بم گرائے جبکہ 2018 میں 7 ہزار 362 بم گرائے گئے تھے۔

2017 میں امریکا نے جنگ زدہ علاقے میں 4 ہزار 361 جبکہ 2017 میں ایک ہزار 337 بم گرائے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں