ڈیجیٹل کمپنیوں کا حکومت سے آن لائن ریگولیشن پر نظرثانی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 14 فروری 2020
اے آئی سی ایک صنعتی اتحاد ہے جو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجیز کی بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
اے آئی سی ایک صنعتی اتحاد ہے جو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجیز کی بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی: ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط جاری کردیے اور ساتھ ہی متعلقہ حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اقدام پر دوبارہ غور کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے آئی سی ایک صنعتی اتحاد ہے جو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجیز کی بڑی کمپنیوں مثلاً فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، ایمازون، ایئر بی این بی، ایپل، بکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا گروپ، گریب، لنکڈ ان، لائن، راکوٹین اور یاہو (اوتھ) پر مشتمل ہے۔

اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اے آئی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے کہا کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز اور انڈسٹری کے ساتھ مشاورت کیے بغیر وسیع پیمانے پر آن لائن قواعد کا ایک مجموعہ جاری کرنے پر ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کو گہری تشویش ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قواعد اظہار رائے کی آزادی کو مجروح اور شہریوں کے ذاتی تحفظ اور پرائیویسی کو خطرے میں ڈال دیں گے، ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ ان رولز پر دوبارہ غور کیا جائے جو ممکنہ طور پر پاکستان کے ڈیجیٹل اکانومی کے عزائم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ ’سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020‘ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 اینڈ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت نوٹیفائیڈ کیا گیا تھا۔

ان قواعد میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے پاکستان میں مواد اور روابط کے حوالے سے وسیع گائیڈ لائنز شامل ہیں جس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مستقل دفتر قائم کرنا، شہریوں کے ڈیٹا کی پرائیویسی کے لیے ملک میں ہی اسے ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے ساتھ کمپنی کی ریگولیشن پالسیز سے قطع نظر حکومت کی جانب سے کسی مواد کو ہٹانے کی درخواست پر عمل کرنا شامل ہے۔

مواد ہٹانے کی درخواستوں میں اضافہ

خیال رہے کہ گزشتہ برس سے حکومت ایسی متعدد کوششیں کرچکی ہے کہ جس میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے مواد ہٹانے کی درخواست پر عملدرآمد کروایا جاسکے۔

سال 2019 کے ابتدائی 6 ماہ میں پاکستان نے مواد کے سب سے بڑے حجم (31 فیصد) کو فیس بک پر رپورٹ کیا۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کا فیصلہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ صرف وہ مواد پکڑتی ہے جو مقامی سطح پر حکام غیر قانونی سمجھتے ہوں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ سے ہٹائی گئیں، 5 ہزار 690 چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی فیس بک کی کانٹینٹ پالیسی کی خلاف ورزی پر نہیں ہٹائی گئی بلکہ پاکستانی سائبر کرائم لا کے تحت ایسا کیا گیا۔

اس بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ڈان کو بتایا کہ ’جنوری تا جولائی 2019 کی اپنی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں فیس بک نے لکھا تھا کہ پی ٹی اے کی جانب سے رپورٹ کیے گئے 5 ہزار 690 یو آر ایلز پر مقامی قوانین کی خلاف ورزی کے تحت کارروائی کی گئی‘۔

پی ٹی اے کا مزید کہنا تھا کہ اتھارٹی نے مجموعی طور پر فیس بک پر 14 ہزار 296 یو آر ایلز رپورٹ کیے تھے جس میں سے ویب سائٹ نے 12 ہزا 226 ہٹائے (ان میں 6 ہزار 535 فیس بک کے کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی پر ہٹائے گئے)۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان

پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ اس نے زیادہ تر ایسا مواد رپورٹ کیا جو توہین مذہب، فرقہ واریت/نفرت انگیز بیانیے، ریاست مخالف، ہتک عزت اور کسی کی نقالی کرنے سے متعلق تھا۔

ادھر ٹوئٹر کو بھی پاکستان حکام کے ساتھ روابط کی کمی اور عملدرآمد نہ کرنے پر مسلسل اسکروٹنی کا سامنا ہے۔

گزشتہ برس اگست میں پی ٹی اے نے ایسے 200 ٹوئٹر اکاؤنٹس کی نشاندہی کی تھی جو کشمیر کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر معطل کیے گئے، پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ اس نے پاکستانی ٹوئٹر صارفین کے ساتھ جانبدارانہ رویے پر ٹوئٹر انتظامیہ کے ساتھ گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس کے علاوہ حکام کی ہدایات پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ٹوئٹر پر پابندی لگانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی تاہم اتھارٹی کے مطابق ٹوئٹر کا ردِ عمل کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کو سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس سلسلے میں ڈان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی اے چیئرمین میجر جنرل (ر) عامر عظیم نے آن لائن قواعد کو ’قانونی ضرورت‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد مواد کی منیجمنٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ باضابطہ روابط کا آغاز کرنا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں مقامی نمائندگی پر کام کریں جن سے ہم رابطہ کرسکیں اور اپنے تحفظات ان تک پہنچا سکیں‘۔

سوشل میڈیا ریگولیٹری قواعد

خیال رہے کہ 28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 5 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

اس میں جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تکنیکی صلاحیت بڑھائیں یا سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کریں، پی ٹی اے کی تجویز

ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرانک طریقے سے ’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورتحال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں