بھارت کے برعکس پاکستان میں زنانہ افرادی قوت میں اضافہ

اپ ڈیٹ 19 فروری 2020
گزشتہ 30 سال کے عرصے میں افرادی قوت میں صنفی تفاوت میں کمی آئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
گزشتہ 30 سال کے عرصے میں افرادی قوت میں صنفی تفاوت میں کمی آئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان اور بھارت میں زنانہ افرادی قوت 30 فیصد سے کم (عالمی اوسط کی نصف) ہے اور دونوں پڑوسی ممالک مخالف سمت کی جانب گامزن ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں حالیہ عشروں کے دوران بھارت میں زنانہ افرادی قوت کی شرکت میں اوسطاً ایک فیصد کمی جبکہ پاکستان میں 2 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

مذکورہ معلومات ’افرادی قوت میں خواتین: مالیاتی پالیسیز کا کردار‘ کے عنوان سے عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) کی تحقیق کا حصہ ہیں۔

آئی ایم ایف اسٹاف کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے مردوں کی طرح کے مواقع میسر نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صنفی تفاوت کے اعتبار سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

حالانکہ گزشتہ 30 سال کے عرصے میں افرادی قوت میں صنفی تفاوت میں کمی آئی ہے پھر بھی خواتین کی افرادی قوت کی شرکت مردوں کی شرح سے کہیں کم ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زنانہ افرادی قوت کی حصے داری میں اضافے اور مردانہ افرادی قوت کی شرکت مستحکم رہنے سے افرادی قوت کے عالمی صنفی تفاوت میں کمی آئی اور 2018 میں اس میں 20 فیصد پوائنٹس کی کمی ہوئی۔

خیال رہے کہ 2018 تک افرادی قوت میں 15 سے 64 سال کی عمر کی صرف 60 فیصد خواتین شامل تھیں جبکہ مردوں کی شرح 80 فیصد تھی تاہم بھارت، پاکستان اور مصر سمیت 21 ممالک میں زنانہ افرادی قوت کی شرکت 30 فیصد کم تھی۔

دنیا کے مختلف ممالک میں زنانہ افرادی قوت کا حصہ ممالک کے اعتبار سے مختلف ہے جس میں الجیریا اور اردن میں 15 فیصد سے لے کر آئس لینڈ میں 86 فیصد ہے۔

مزید پڑھیں: صنفی مساوات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار

یہ تفاوت معیشتوں اور سماجی ڈھانچوں میں موجود تفریق کا عکاس ہے جو خواتین کے لیے معاشی مواقع پر اثر انداز ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں ممالک کے درمیان 1990 سے زنانہ افرادی قوت میں اضافہ بھی مختلف ہے، عالمی سطح پر ایک چوتھائی ممالک میں زنانہ افرادی قوت کی شرکت میں کمی دیکھی جارہی ہے مثلاً بھارت اور سری لنکا میں 1990 سے 2018 تک اس میں ایک فیصد کی کمی دیکھی گئی جبکہ پاکستان، پیرو اور اسپین میں سالانہ اوسطاً 2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام ممالک میں زنانہ افرادی قوت کی حصے داری اب بھی مردوں کی شرح سے 20 فیصد پوائنٹس کم ہے جبکہ تنخواہوں اور تعلیمی اداروں تک رسائی میں بھی صنفی تفاوت پایا جاتا ہے‘۔

اس سلسلے میں بہت سے ممالک 80 کی دہائی کے وسط سے ایسی معاشی پالیسیز اپنا رہے ہیں جو صنفی مساوات کو فروغ دیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘صنفی عدم مساوات ختم کرکے جی ڈی پی میں بہتری لائی جاسکتی ہے’

یوں 2018 تک کم از کم 80 ممالک میں صنفی تفاوت کو کم کرنے کے لیے صنفی ذمہ داریوں پر مشتمل پالیسی کا استعمال کیا گیا۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ صنفی ذمہ داریوں پر مشتمل مالی پالیسز سے زنانہ افرادی قوت کی شرکت میں مدد ملی اور اس کے اہم میکرواکنامک اور ڈسٹریبیوشنل اثرات ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں