جسٹس عیسیٰ کا وزیراعظم سمیت نامور ملکی شخصیات پر آف شور کمپنیز بنانے کا الزام

اپ ڈیٹ 22 فروری 2020
جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا کہ میرے خاندان نے کبھی ان فلیٹس کو چھپانے کی کوشش نہیں کی— فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا کہ میرے خاندان نے کبھی ان فلیٹس کو چھپانے کی کوشش نہیں کی— فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم سمیت ملک کی نامور شخصیات کے برعکس آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں نہیں چھپائیں۔

عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر جمع کروائے گئے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی جاسوسی اور حکومت کی جانب سے ادارہ جاتی مفاد کے نام پر رازداری کی خلاف ورزی پر غم و غصے کا اظہار کیا۔

اپنے جواب میں جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا کہ میرے خاندان نے کبھی ان فلیٹس کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود دیگر کئی معروف شخصیات (بشمول موجودہ وزیراعظم پاکستان) کے برعکس یہ فلیٹس کسی آف شور کمپنی یا پاناما، کیمین جزائر آئل آف مین، جرسی میں کسی بلائنڈ ٹرسٹ میں رجسٹر نہیں جبکہ اسے نہ ہی برطانیہ کے ٹیکس سے بچنے یا شناخت چھپانے کے مقاصد سے کسی آف شور ذرائع سے چھپایا۔

مزید پڑھیں: منیر ملک کا جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر توہین عدالت کے مقدمے کا مطالبہ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ جائیدادیں میری اہلیہ اور بچوں کے ذاتی ناموں پر خریدی گئیں اور انہی پر ہیں، یہ فلیٹس ان کے پاسپورٹس پر درج ناموں پر لیے گئے ہیں جن کے ذریعے وہ پاکستان آتے جاتے ہیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ پہلا ریفرنس دائر ہونے سے 2 ماہ قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے کہا تھا کہ درخواست گزار (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) جج بننے کے اہل نہیں کیونکہ انہوں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2019کو پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ 10 اپریل 2019 کو عبدالوحید ڈوگر نے میرے خلاف درخواست جمع کروائی تھی اور 16 اپریل 2019 تک اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مواد جمع کرنے اور تحقیقات میں مصروف تھا جس کا نتیجہ 20 مئی 2019 کو پہلے ریفرنس کی صورت میں نکلا۔

یہ بھی پڑھیں: صدارتی ریفرنس کے خلاف سماعت: ‘جسٹس فائز عیسیٰ نے بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کیا‘

جواب میں کہا گیا کہ اگر درخواست گزار عدالت کا جج نہ ہو تو وہ نظر ثانی نہیں کرسکتا اور اپنی درخواستوں سے فریقین نے ریفرنس کے پیچھے اصل مقصد کو بتایا ہے (کیونکہ) یہ کبھی بھی جائیدادوں سے متعلق نہیں تھا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ ہمارے قانون میں شامل نہیں، یہ ہمارے آئین، بزنس قوانین، پارلیمنٹ کے کسی ایکٹ یا کسی آرڈیننس میں شامل نہیں، اس حوالے سے سرکاری گزٹ میں بھی کوئی نوٹیفکیشن شائع نہیں کیا گیا۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کوئی ادارہ نہیں ہے، اس کے پاس کوئی تحقیقات شروع کرنے یا وزیراعظم سیکریٹریٹ میں پینسل چوری ہونے سے متعلق پیون کے خلاف مواد جمع کرنے کی لیگل اتھارٹی نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست پر فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیرقانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں