مصر کے سابق صدر حسنی مبارک 91برس کی عمر میں انتقال کر گئے

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
حسنی مبارک تقریباً 30 سال تک مصر کے حکمران رہے — فوٹو:
حسنی مبارک تقریباً 30 سال تک مصر کے حکمران رہے — فوٹو:

مصر پر تقریباً 30 سال تک حکومت کرنے والے سابق صدر حسنی مبارک طویل علالت کے بعد منگل کو 91برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حسنی مبارک کا انتقال سرجری کے دوران ہوا، اس کے علاوہ کوئی معلومات جاری نہیں کی گئیں۔

سابق صدر کے انتقال پر مصر میں تین روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق مصری صدر حسنی مبارک 6 سال بعد رہا

سابق صدر انور السادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک نے 1981 میں اقتدار سنبھالا تھا اور اس کے بعد تقریباً 30 سال تک وہ مصر کے سیاہ و سفید کے مالک تھے لیکن 2011 میں عرب بہار کے نام سے مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی تحریک کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا تھا۔

اپنے 30 سالہ دور میں وہ امریکا کے قریبی اتحادی تھے جہاں انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کیا اور اسرائیل اور مصر کے درمیان امن کے محافظ بنے رہے۔

تاہم ان کے 30 سالہ دور کا اختتام اس وقت ہوا جب تیونس سے 'عرب بہار' کے نام سے شروع ہونے والی تحریک 25 جنوری 2011 کو مصر تک جا پہنچی اور 18 دن تک مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں حسنی مبارک کے دور میں کیے گئے مظالم پر برہم عوام نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

حسنی مبارک کی 11مارچ 2009 کو سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر— فوٹو: اے پی
حسنی مبارک کی 11مارچ 2009 کو سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر— فوٹو: اے پی

عوام کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث فوج نے حسنی مبارک کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور انہوں نے 11 فروری 2011 کو اقتدار چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مصر کے تحریر اسکوائر پر احتجاج، مظاہرین کا سیسی سے استعفے کا مطالبہ

حسنی مبارک سے قبل ہی تیونس کے صدر بھی اقتدار چھوڑ چکے تھے لیکن حسنی مبارک کی عوامی احتجاج کے نتیجے میں اقتدار سے معزولی نے عرب دنیا کو ہلاک کر رکھ دیا تھا۔

حسنی مبارک کے بعد انتخابات کے نتیجے میں صدر محمد مرسی کی سربراہی میں اخوان المسلمون کی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔

مصر کے سابق صدر اس یادگار تصویر میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے مصافحہ کر رہے ہیں، اس موقع پر امریکی صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم یٹژاک رابن اور اردن کے بادشاہ حسین بھی موجود ہیں— فوٹو: اے ایف پی
مصر کے سابق صدر اس یادگار تصویر میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے مصافحہ کر رہے ہیں، اس موقع پر امریکی صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم یٹژاک رابن اور اردن کے بادشاہ حسین بھی موجود ہیں— فوٹو: اے ایف پی

وہ اس احتجاج کے نتیجے میں اقتدار سے معزول کر کے گرفتار کیے جانے والے دنیا کے پہلے حکمران تھے اور جون 2012 میں ان کے سابق سیکیورٹی چیف کے ہمراہ ان پر فرد جرم عائد کی گئی اور 18 روزہ احتجاج کے دوران تقریباً 900 افراد کی ہلاکت کے جرم میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: مصر: بدعنوانی کا الزام، حسنی مبارک کے بیٹوں کی گرفتاری کا حکم

اس فیصلے کے خلاف انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کی تھی جس نے انہیں 2014 میں ان الزامات سے بری کردیا تھا جس پر مصر کے عوام نے شدید حیرانی کا اظہار کیا اور ہزاروں افراد نے قاہرہ میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

اس کے بعد اگلے سال حسنی مبارک اور ان کے دو بیٹوں کو کرپشن کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، ان کے بیٹوں کو 2015 میں بری کردیا گیا تھا جبکہ حسنی مبارک 2017 میں بری کردیے گئے تھے۔

2011 میں اپنی گرفتاری کے بعد مصر کے سابق آمر نے جیل میں تقریباً 6 سال گزارے اور بری ہونے کے بعد انہیں قاہرہ کے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے 30 سالہ دور کے دوران مصر میں ایمرجنسی قوانین نافذ رہے جس کے تحت مصر کے سابق آمر کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔

1979 میں اس وقت کے صدر انور سادات کے ساتھ حسنی مبارک کی لی گئی ایک تصویر— فوٹو: اے پی
1979 میں اس وقت کے صدر انور سادات کے ساتھ حسنی مبارک کی لی گئی ایک تصویر— فوٹو: اے پی

تین دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے دوران حسنی مبارک پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے بھی کیے گئے جس میں سب سے خطرناک 1995 میں ایتھوپیا کے دارالحکومت ایدس ابابا میں کیا گیا تھا لیکن وہ خوش قسمتی سے تمام حملوں میں بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔

حسنی مبارک 14 اکتوبر 1928 کو پیدا ہوئے تھے اور جب انتہا پسندوں نے فوجی پریڈ کے دوران صدر انور سادات پر حملہ کیا تو وہ اس وقت مصر کے نائب صدر تھے۔

انور سادات اور حسنی مبارک فوجی پریڈ کا جائزہ لے رہے تھے کہ حملہ آروں نے اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں سادات دم توڑ گئے تھے جبکہ ایک گولی حسنی مبارک کو بھی چھوتی ہوئی گزری تھی جس سے وہ معمولی زخمی ہوئے تھے۔

ایئرفورس کے سابق سربراہ کے منصب پر فائز رہنے والے حسنی مبارک نے اس واقعے کے 8دن بعد مصر کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں