رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

گزرنے والا ایک مہینہ عالمی بینک کے لیے کسی طوفان سے کم نہیں رہا۔

بینک کے منجھے ہوئے اقتصادی ماہرین کی فوجیں تواتر کے ساتھ ابھرتی معیشتوں میں صنفی برابری کے فروغ سمیت مختلف ترقیاتی مسائل کے مؤثر حل جیسے موضوعات پر تحقیقی کام کرتے ہیں۔

پھر اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بلاشبہ عالمی بینک کے اکثر و بیشتر تحقیقی مقالے اور دیگر تحقیقی کام پر زیادہ غور و فکر یا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ تحقیقی کام جب منظرِعام پر لایا جاتا ہے تو اس پر تنازع کھڑا ہونا تو کجا، بس اس پر نظر مار کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔

مگر اس بار ایسا نہیں ہوا اور عالمی بینک کی جو حالیہ تحقیق سامنے آئی ہے اس میں معاملہ مختلف ہے۔ جارگن جوئل اینڈرسن، نیلز جوہانسن اور باب رجکرز کی جانب سے پیش کی گئی ہے ایک تحقیق Entitled Elite Capture of Foreign Aid: Evidence from Offshore Bank Accounts سامنے آئی جسے عالمی بینک کا مکمل تعاون حاصل رہا اور اس تحقیق کے لیے بینک کے چیف پینی گولڈ برگ (جو اب سابق ہوچکے ہیں) سمیت ادارے کے اپنے اقتصادی ماہرین کی بھرپور خدمات حاصل رہیں.

رپورٹس کے مطابق اس تحقیق کے متعدد جائزوں کی بدولت نتائج کو بہتر اور منظم بنانے میں مدد ملی ہے۔

ان نتائج نے ایک بڑی خرابی سے پردہ اٹھایا ہے۔ سوئٹزرلینڈ، لیگزمبرگ، کیمن آئی لینڈز، ہانگ کانگ اور سنگارپور میں واقع آف شور بینکوں کے ڈیٹا کا جائزہ لینے پر محققین یہ پتا لگانے میں کامیاب رہے ہیں کہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والے زیادہ تر ممالک کو جب غیر ملکی امدادی رقوم منتقل ہوتی ہیں تب کیا ہوتا ہے؟

محققین نے پایا کہ جیسے ہی ملکوں کو رقوم جاری کی جاتی ہیں اسی کے ساتھ آف شور اکاؤنٹس میں رقوم کی منتقلی کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ امدادی رقوم کے اجرا اور پیسوں کی آف شور اکاؤنٹ میں منتقلی کا یہ آپسی تعلق 20 سے زائد ملکوں سے ہونے والی امدادی رقوم کی منتقلی کے 10 سالہ ریکارڈ کا جائزہ لینے پر پایا گیا ہے۔

اب تو واضح ہوگیا کہ گڑبڑ کہاں ہے۔ عالمی بینک دنیا کے غریب ترین ممالک کو جو رقوم فراہم کرتی تھی وہ بظاہرسیدھا آف شور اکاؤنٹس میں منتقل ہوجایا کرتی تھی۔ نتائج نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ان امدادی رقوم کی ابتدائی ترسیل کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ مقامی اشرافیہ کو ان رقوم پر ٹیکس ادا نہ کرنا پڑے جو بظاہر عوام سے لوٹی گئی تھیں۔ بالخصوص ان ممالک میں تو صورتحال بدتر تھی جس کی جی ڈی پی ترقیاتی امداد پر ٹکی ہوئی تھی۔

اس مقالے میں ان آف شور اکاؤنٹس میں رقوم کے اچانک اضافے سے متعلق چند مختلف وضاحتیں بھی شامل ہیں۔ جیسے یہ کہا گیا کہ ممکن ہے کم ترقی یافتہ کریڈٹ مارکیٹس والے ملکوں نے یہ رقوم خود اس وقت تک کے لیے ان آف شور اکاؤنٹس میں رکھوائی ہوں جب تک امدادی رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص نہ ہوجائے۔ اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکن ہے ان اکاؤنٹس کو بڑے بڑے قومی ادارے دیکھ رہے ہوں اور انہوں نے ہی ان کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہو۔

ان ساری باتوں کے باوجود اس مقالے کے نتیجے نے تنازع کو جنم دیا ہے اور کئی سوال کھڑے کیے ہیں۔ ایک واضح مسئلہ تو یہی ہے کہ عالمی بینک کا بنیادی مقصد ہی دنیا کی غریب ترین آبادی کی مدد کرنا ہے، وہی لوگ جن سے لوٹی ہوئی دولت آف شور اکاؤنٹس میں منتقل کی جاتی رہی۔ اگر مقالے کے نتائج کو من و عن قبول کرلیا جائے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امدادی رقوم کی ادائیگیوں سے غریب کو تو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچا البتہ اکثر و بیشتر ان سے کرپٹ اقتصادی اشرافیہ کی پہلے سے گرم جیبیں مزید گرم ضرور ہوئیں۔

کہا جارہا ہے کہ اس ایک مقالے کی بدولت دنیا کے سب سے بڑے امدادی اور ترقیاتی ادارے میں کھڑے ہونے والے ہنگامے کی وجہ سے پینی گولڈبرگ کو چیف اقتصادی ماہر کے عہدے سے محض 15 ماہ گزرنے کے بعد ہی استعفیٰ دینا پڑگیا۔

دی اکنامسٹ نے ورلڈ بینک کے باسز پر مقالے کی اشاعت کو روکنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یقیناً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مقالے کا اجرا بظاہر کافی تاخیر سے ہوا ہے، پھر اس مقالے کے کسی ایک مصنف نے اس تحقیق کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا اور اس کے بعد جاکر عالمی بینک نے عوامی رسائی کے لیے اسے اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا۔

مگر اس تنازع سے خرابیوں کو ظاہر کرنے والی اس تحقیق کے نتائج سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ پاکستان کا نام بھلے ہی رپورٹ میں شامل نہیں ہو لیکن طویل عرصے سے امدادی رقوم پر منحصر رہنے والے پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ یہ پیسہ کہاں جاتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی حالیہ تاریخ کے سیاسی ہنگاموں کی بنیاد پانامہ پیپرز، وکی لیکس اور دیگر ذرائع کی وہ معلومات بنیں جس کے ذریعے ملک کی سیاسی اشرافیہ میں پھیلی کرپشن اور بدعنوانی کا انکشاف ہوا۔

مگر چونکہ اب عالمی بینک اپنی تحقیق میں یہ کہہ رہا ہے کہ آف شور اکاؤنٹس میں 75 فیصد تک اضافہ انہی کی ادا کردہ رقوم سے ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ معاملہ مزید باعثِ تشویش بن جاتا ہے۔ اگر عالمی بینک اپنی تحقیق اور اس کے نتائج کو سنجیدہ لینا چاہتا ہے تو اسے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جب یہ ادارہ اس قسم کی تحقیق شائع کرتا ہے تو مجموعی طور پر اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ وہ اپنے سب سے اہم کام کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

عالمی بینک کا اگلا لائحہ عمل ہی رواں صدی میں امداد کا طریقہ کار متعین کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی کئی بار تنقید کی جاتی رہی ہے کہ امدادی رقوم کی ادائیگیوں کا نظام اور ذرائع کس طرح کامیاب ترقیاتی منصوبوں یا عوام کو غربت سے نکالنے میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتے۔ اس تازہ تحقیق نے اس تنقیدی آگ کے لیے ایندھن کا کام کیا ہے جس کے مطابق امداد کے پورے ڈھانچے کا ازسرِ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عام طور پر اقتصادی ماہرین اخلاقیات کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ تاہم اس بار تحقیق کے ڈیٹا نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی اشرافیہ چوری کو بالکل بھی معیوب عمل تصور نہیں کرتی کیونکہ اسی طرح تو امیروں کی بیویوں اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائر لوگوں کے مہنگے شوق پورے ہورہے ہوتے ہیں۔

اگر متعدد لوگ طویل عرصے سے اس باقاعدگی کے ساتھ پیسے چوری کرتے رہے ہیں تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دنیا کی غریب ترین آبادیوں پر حکمرانی کرنے والے لوگوں نے دوسروں کی دولت ہتھیانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور یہ عالمی بینک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسی بات ہے جس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے۔

اخلاقیات کو ایک طرف رکھیے، تحقیقی مقالے اور چیف اقتصادی ماہر کے استعفیٰ کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے منظرِعام پر آنے والے الزامات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بڑی تبدیلیاں ہونے کو ہیں۔ ہم ایسے بہت سے بدنیت مڈل مین کو جانتے ہیں جنہوں نے قانونی چھوٹ کے ساتھ پیسہ چوری کیا، لیکن شاید اب ان کے پاس پیسہ چوری کرنے کے مواقع نصیب نہ ہوں۔

جہاں تک بات غریبوں کی ہے تو ان کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آئے گا، انہیں کبھی وہ دولت نصیب نہیں ہوئی جو ان کی اپنی تھی، اور شاید کبھی نصیب ہوگی بھی نہیں۔


یہ مضمون 26 فروری 2020ء کو ان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں