افغان امن معاہدہ: ناقدین بھی پاکستان کے معترف ہوگئے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے اور جو تنقید کرتے تھے وہ کل پاکستان کےمعترف تھے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کی تقریب میں 50 سےزائد ممالک موجود تھے، ایک مسلسل کاوش کے بعد یہ سفر طے کیا گیا'۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران میں نے کئی اہم اقدامات انہیں تجویز کیے ہیں جو امن معاہدے کو مزید بڑھانے میں مدد دیں گے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسے دراندازوں جو منفی کردار ادا کریں ’ان کی شناخت کرنے اور ان کو سامنے لانے کے لیے‘ ایک میکانزم تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عالمی برادری بالخصوص امریکا کو دراندازوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور انہیں امن کی بحالی کے منصوبے میں خللل ڈالنے سے روکنا ہوگا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ پومپیو نے ملاقات میں انہوں نے امن معاہدے سے پیدا ہونے والی ’رفتار کو برقرار رکھنے‘ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں فریقین باہمی اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر قیدیوں کا تبادلہ کریں، ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات میں مزید کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔

افغانستان میں ’سیاسی غیر یقینی‘ کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف امریکا دور کرسکتا ہے پاکستان اس سلسلے میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں

امریکا کی پاکستان سے توقعات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے فیصلے اپنے مفاد میں کیے ہیں کیوں کہ افغان امن معاہدے سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا، اس سے باہمی اقتصادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تاپی (ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا پائپ لائن منصوبے)، کاسا1000(وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا توانائی منصوبے) اور دیگر منصوبوں کی تکمیل کی راہ ہموار ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے افغان امن معاہدے کا خواہاں تھا لیکن اپنے ملک کے مستقبل کے لیے بنیادی فیصلے افغانوں کو خود کرنے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'امن معاہدے سے انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوگا، ناروے نے انٹرا افغان ڈائیلاگ کی میزبانی کی ہامی بھری ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کےعوام امن چاہتے ہیں انہوں نے طویل جنگ دیکھی ہے، اگر افغانستان میں امن ہوگا تو وہاں کے عوام سکھ کا سانس لیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ 'پاکستان کی رائے میں معاہدہ اہم پیشرفت ہے، معاہدے پر طالبان اور امریکی حکام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پائیدار امن کا فیصلہ افغانیوں نے خود کرنا ہے اب دیکھنا ہوگا معاہدے پر کتنی سنجیدگی دکھائی جاتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک دوسرے کے اعتماد کو کس طرح بحال کرناہے یہ ان کو دیکھنا ہے، افغان عوام امن چاہتے ہیں اب یہ وہاں کی لیڈر شپ کے لیے آزمائش ہے'۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'دیکھنا یہ ہے کہ افغان لیڈر شپ مل بیٹھ کر پولیٹیِکل روڈ میپ کے لیے آمادہ ہوتی ہے اور جو منفی کردار ادا کر رہا ہے اس پر نظر رکھنی ہوگی'۔

مزید پڑھیں: ایران نے افغان امن معاہدے کی مخالفت کردی

انہوں نے کہا کہ 'معاہدہ امریکا اور طالبان کے درمیان پہلا ٹھوس قدم ہے، ایک طویل کاوش کے بعد یہ سفر طے کیا گیا، افغانستان میں امن سے پاکستان کو بھی فوائد حاصل ہوں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین میں موجود افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ سالوں میں افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی آئی ہے افغان قیادت کو خود مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں