ایران نے افغان امن معاہدے کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2020
امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر گزشتہ روز دستخط ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز
امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر گزشتہ روز دستخط ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز

ایران نے گزشتہ روز امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے افغان امن معاہدے کی مخالفت کردی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران نے افغان امن معاہدے کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو افغانستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے کا کوئی حق نہیں۔

مزیدپڑھیں: امریکا، طالبان امن معاہدہ: افغان صدر نے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'امریکا، افغانستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے اور امن معاہدے پر دستخط کا قانونی حق نہیں رکھتا'۔

بیان میں کہا گیا کہ ایران نے افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کی بے دخلی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ان کی موجودگی غیرقانونی ہے اور جو خطے میں عدم استحکام اور جنگ کی وجہ بنی۔

ایران نے کہا کہ پائیدار امن کا حصول صرف انٹرا افغان مذاکرات سے ممکن ہوسکتا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ طالبان اور پڑوسی ممالک کو شامل کیا جائے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ اقوام متحدہ افغانوں میں مذاکرات کی میزبانی کی صلاحیت رکھتا ہے'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'اقوام متحدہ اس کے علاوہ معاہدے پر عمل درآمد اور اس کی نگرانی بھی کرسکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں

واضح رہے کہ گزشتہ روز قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب ہوئی تھی جس میں 50 ممالک کے سفرا اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی تھی۔

امن معاہدے پر امریکا کے معاون خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس موقع پر امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔

معاہدے سے متعلق منعقدہ تقریب کے موقع پر ملا برادر نے ناروے، ترکی اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے روس، انڈونیشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے سفرا سے بھی ملاقات کی تھی۔

چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

  1. طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

  2. افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔

  3. طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

  4. انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

بعدازاں افغان طالبان اور امریکی ٓحکومت میں امن معاہدے طے پاجانے کے فوری بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی طور پر جلد افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

امن معاہدہ طے پاجانے کے چند گھنٹوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس پر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جلد ہی افغان طالبان کی قیادت سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب اور کہاں طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں