میانمار: فوج کی فائرنگ سے 5 روہنگیا مسلمان جاں بحق

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2020
عسکریت پسندوں نے ریاستی فوج کو شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا—فائل فوٹو: اے ایف پی
عسکریت پسندوں نے ریاستی فوج کو شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا—فائل فوٹو: اے ایف پی

میانمار کی مغربی ریاست راکھائن میں فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے کم از کم 5 روہنگیا مسلمان جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قانون ساز اور مقامی افراد کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز مراک یو قصبے میں فوج کی فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں 12 سالہ لڑکے سمیت 5 مسلمان جاں بحق ہوگئے۔

مزیدپڑھیں: ’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘

زخمی ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد کم ازکم 11رپورٹ کی گئی۔

میڈیا رپورٹس میں مقامی روہنگیا باشندے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاں بحق افراد کی لاشوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔

انہوں نے مزید کہا مقتولین کی آخری رسومات آج ادا کردی گئیں۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ ہم غیر محفوظ ہیں اس لیے یہاں سے 'باہر نہیں نکل سکتے اور نہ ہی کہیں جا سکتے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہم صرف اپنے گاؤں میں ہی محفوظ ہیں، اگر حالات ایسے رہے تو مجھے لگتا ہے کہ کوئی امید نہیں ہے'۔

علاقائی رکن پارلیمنٹ تون تھر سین کا کہنا تھا کہ تصادم گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا جب راکھائن میں بدھسٹ کے شر پسندوں پر مشتمل جنگجوؤں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا۔

قانون ساز نے مزید کہا کہ جواب میں فوجیوں نے شورش زدہ علاقے کے دو دیہاتوں پر فائرنگ اور گولہ باری کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’مسلمانوں کی نسل کشی پرمیانمار فوج کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں‘

دوسری جانب میانمار کی فوج نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسند گروہ شہریوں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔

اس ضمن میں ریاست راکھائن کی خودمختاری کے خواہاں عسکریت پسندوں کے ترجمان کھین تھو کھا نے فوجی دعوے کو مسترد کردیا۔

انہوں نے شہری کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ریاستی فوج کو ٹھہرایا۔

یاد رہے کہ جنوری کے اوائل میں میانمار میں ایک دھماکے میں 4 روہنگیا بچے ہلاک ہوگئے تھے جس کے حوالے سے فوج اور باغیوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے تھے۔

بعد ازاں 25 جنوری کو میانمار کے فوجیوں نے روہنگیا کے ایک گاؤں پر گولہ باری کی تھی جس میں ایک حاملہ خاتون سمیت دو خواتین ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ 2018 میں میانمار کی شمالی ریاست رکھائن میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 7 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

مزیدپڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کیلئے اقدامات کیے جائیں، عالمی عدالت انصاف

میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی، جہاں ان کی حالت غذائی قلت کے باعث ابتر ہوگئی تھی

جس کے بعد اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف نے میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے اور انہیں ظلم و ستم سے بچانے کے ساتھ ساتھ روہنگیا کے خلاف ہونے والے مبینہ جرائم کے ثبوت اکٹھے کرنے کا حکم دیا تھا۔

مسلم اکثریت آبادی کے حامل ملک گیمبیا نے اقوام متحدہ میں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے فورم عالمی عدالت انصاف میں 2018 میں انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار پر 1948کے کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میانمار میں نسل کشی کر رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں روہنگیا نسل کشی اب بھی جاری ہے، اقوام متحدہ

ہیگ میں عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے چند لمحے قبل ہی فنانشل ٹائمز نے میانمار کے رہنما آنگ سان سوچی کا انٹرویو شائع کیا جنہوں نے اس میں کہا کہ روہنگا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب ضرور کیا گیا ہوگا لیکن پناہ گزینوں نے ان جرائم اور مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

گزشتہ ماہ سماعت کے دوران 1991 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی سوچی نے ججوں کو مقدمہ خارج کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں