امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2020
حکام کے مطابق بم حملے میں 3 بھائی ہلاک ہوگئے — فائل فوٹو: اے ایف پی
حکام کے مطابق بم حملے میں 3 بھائی ہلاک ہوگئے — فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں چند روز کی جنگ بندی کا اختتام ایک خوف ناک دھماکے سے ہوگیا جبکہ طالبان نے واشنگٹن کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد اپنے جنگجوؤں کو افغان فورسز کے خلاف آپریشنز بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مشرقی حصے خوست میں ایک فٹبال گراؤنڈ میں ہونے والے اس حملے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی جس میں حکام کے مطابق 3 بھائی ہلاک ہوئے۔

دھماکا اسی وقت ہوا جب طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو افغان فوج اور پولیس فورسز کے خلاف حملے کرنے کا حکم دیا جو بظاہر سرکاری سطح پر 'تشدد میں کمی' کے معاہدے کا خاتمہ تھا۔

واضح رہے کہ امریکا، طالبان اور افغان فورسز کے درمیان عارضی معاہدہ ایک ہفتے تک برقرار رہا جس کے نتیجے میں امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہفتے کے روز معاہدے پر دستخظ ہوئے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'تشدد میں کمی، اب ختم ہوچکی ہے اور ہمارے آپریشنز معمول کے مطابق جاری رہیں گے'۔

مزید پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا طالبان معاہدے کے مطابق ہمارے مجاہدین غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں کریں گے تاہم ہمارے آپریشنز کابل انتظامیہ کی فورسز کے خلاف جاری رہیں گے'۔

ایک طالبان رہنما کی جانب سے اے ایف پی کو فراہم کی گئیں دستاویزات کے مطابق طالبان کے فوجی کمیشن نے جنگجوؤں کو ہدایات جاری کیں کہ آپریشنز بحال کریں۔

اس کے فوری بعد ہی افغان فوج کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ طالبان شمال مغربی صوبے بغدیس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم ایک فوجی ہلاک ہوا ہے۔

ادھر افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ عارضی معاہدے کو افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے جو ممکنہ طور پر 10 مارچ کو ہوگا تاہم انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مسترد کردیا۔

دریں اثنا وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن کا کہنا تھا کہ 'حکومت ابھی اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ معاہدہ ختم ہوگیا ہے یا نہیں'۔

قبل ازیں واشنگٹن کا کہنا تھا کہہ انہیں امید ہے کہ طالبان تشدد میں کمی کو بین الافغان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے۔

امریکی افواج کے افغانستان کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کا کہنا تھا کہ 'تشدد میں کمی حوصلہ افزائی کے لیے ہے، ہم اپنی ذمہ داریوں پر سنجیدہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ طالبان اپنی ذمہ داریوں پر بھی سنجیدہ ہوں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا کا اس کی امیدوں کے بارے میں واضح موقف ہے، تشدد کو کم ہونا چاہیے'۔

خیال رہے کہ امریکا نے اس سے قبل کہا تھا کہہ اگر ان کے افغان شراکت داروں پر حملہ ہوا تو وہ اس کا دفاع کریں گے۔

موٹرسائیکل حملہ

علاوہ ازیں دوحہ معاہدے میں افغان حکومت کے پاس قید 5 ہزار طالبان قیدیوں کو ان کے ہزار قیدیوں کے بدلے میں چھوڑنا شامل تھا تاہم اشرف غنی کا کہنا تھا کہ امریکا کو اس طرح کے تبادلے پر مذاکرات کا کوئی حق نہیں ہے۔

اس بارے میں پاکستان میں طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ 'اشرف غنی کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ امریکا نے معاہدہ کرنے سے قبل اس پر کام نہیں کیا تھا'۔

قبل ازیں طالبان ترجمان نے افغان حکومت کی جانب سے قیدیوں کو رہا کیے جانے تک بین الافغان مذاکرات کو مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'بین الافغان مذاکرات کے لیے ہم پوری طرح تیار ہیں تاہم ہمیں ہمارے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہمارے 5 ہزار قیدی (جس میں 100 یا 200 کم یا زیادہ معنیٰ نہیں رکھتے) رہا نہیں کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے'۔

تاہم خوست فٹبال فیڈریشن کے صدر عبدالفتح واکمان کا کہنا تھا کہ 'بم سے لیس موٹرسائیکل پھٹ گئی جس کی وجہ سے 3 بھائی ہلاک ہوگئے'۔

واضح رہے کہ معاہدے پر دستخط کے بعد سے طالبان امریکا پر جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

معاہدے کے تحت اگر طالبان سیکیورٹی ضمانتیں دیں گے اور کابل سے مذاکرات کریں گے تو غیر ملکی فورسز کا افغانستان سے 14 ماہ میں انخلا ہوگا۔

جہاں اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ امن کی جانب پہلا قدم ہے وہیں کئی افغانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔

خیال رہے کہ 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان کے زیادہ تر حصے پر حکمرانی کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں