کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈان اور جنگ میڈیا گروپ کے معطل کردہ سرکاری اشتہارات کو بحال کرے۔

سی پی جے نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ صحافتی اداروں کو 'ان کے ادارتی مؤقف کی پرواہ کیے بغیر' اشتہار دیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کے اشتہارات روکنے کےخلاف ڈان کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کی خبروں اور اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے جنوری سے دونوں میڈیا گروپس کو سرکاری اشتہارات دینے کا عمل معطل کردیا تھا۔

سی پی جے کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا کہ 'دو اہم اور آزاد خبر رساں اداروں ڈان اور جنگ کے سرکاری اشتہارات معطل کرنا بدترین بدلہ لینے کے مترادف ہے'۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اشتہارات کو صحافتی اداروں کے خلاف استعمال کرنا یا ایسے اداروں کو اشتہارات دینا جو حکومتی مؤقف کی حمایت کریں، دراصل پاکستان میں آزادی صحافت کی آئینی ضمانت سے متصادم ہے اور اسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں آزادی صحافت کو فروغ دینے والے ادارے سی پی جے نے خبروں کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ ڈان اور جنگ میڈیا گروپ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ان پر 'جھوٹی خبریں شائع کرنے' کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ چین کے سرکاری دورے پر ان کے بیان کو مبینہ طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا۔

سی پی جے نے کہا کہ اس ضمن میں متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا کہ لیکن وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے تاحال ای میل پر جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان نے وفاقی حکومت کی جانب سے اشتہارات روکنے پر عدالت سے رجوع کرلیا

سی پی جے نے کہا کہ اس سے قبل دو صحافتی اداروں کو 'متعدد مرتبہ حملوں اور پابندیوں' کا سامنا رہا۔

دوسری جانب اے پی این ایس نے ڈان اور جنگ میڈیا گروپس کے سرکاری اشتہاروں پر بھی عائد پابندیوں کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ 'اشتہارات کے ذریعے صحافتی اداروں کی ایڈیٹوریل پالیسی پر اثر انداز ہونا قابل مذمت ہے'۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے روزنامہ ڈان اخبار کے اشتہارات روکنے کے خلاف دائر پاکستان ہیرالڈ پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) کی درخواست پر سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کو 10 مارچ کے لیے نوٹسز جاری کردیے ہیں۔

عدالت عالیہ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے روزنامہ ڈان کے اشتہارات روکنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ پی ایچ پی ایل اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں سیکریٹری اطلاعات و نشریات کے ذریعے وفاق اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن افسر کے ذریعے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کو فریق بنایا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: صحافتی تنظیموں کی ڈان گروپ کے سرکاری اشتہارات پر پابندی کی مذمت

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے اور پبلیکیشن کو اس کی کوئی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا، حالانکہ دہائیوں سے ڈان کو اشتہارات دیے جارہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'ڈان کو سرکاری اشتہارات دینے پر پابندی کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے، درحقیقت ڈان کو اپنے مختلف ایڈیشنز میں ان آرا اور رپورٹس شائع کرنے پر سزا دی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کی آرا اور رپورٹس کے موافق نہیں تھیں۔'

درخواست کے مطابق 'اسی طرح کی خبریں اور تبصرے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئے جنہیں سرکاری اشتہارات دیے جارہے ہیں بلکہ حقیقتاً ڈان کے اشتہارات روکنے کی وجہ سے ان کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔'

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ڈان 'میٹروپولیٹن اے' کٹیگری کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اخبار کی سرکولیشن کے اعداد و شمار حکومت کے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔'

درخواست گزار کا موقف تھا کہ 'پی آئی ڈی کو چاہیے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات جاری کرنے میں انصاف سے کام لے اور اپنی من مانی اور تعصب کا مظاہرہ نہ کرے۔'

مزیدپڑھیں: ملک گیر احتجاجی کیمپس کا انعقاد، ڈان گروپ سے یکجہتی کا اظہار

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'پرنٹ میڈیا کو اشتہار جاری کرنا اور مختلف اخبارات کے لیے اس کی تقسیم کوئی مہربانی نہیں ہے جو حکومت جس پر بھی اور جس بھی وجہ سے کرے، جبکہ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 4، 9، 18، 19 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔'

درخواست گزار کے مطابق سرکاری اشتہارات نہ ملنے سے اخبار کو مجبوراً اس کی قیمت فروخت بڑھانے پڑی گی جس کی وجہ سے اس کی سرکولیشن پر بُری طرح اثر پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں