نئے کورونا وائرس کے علاج کے لیے ممکنہ کنجی دریافت

14 مارچ 2020
جرنل سیل میں شائع تحقیقی رپورٹس میں اہم پیشرفت سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
جرنل سیل میں شائع تحقیقی رپورٹس میں اہم پیشرفت سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

دنای بھر میں متعدد ممالک نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ذرائع تلاش کررہے ہیں۔

یہ نیا کورونا وائرس دیگر کورونا وائرسز خصوصاً سارز اور مرس وائرس سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے اور سائنسدانوں نے ان کی بنیاد پر اس کے علاج اور ویکسین کے لیے اہداف کی نشاندہی کی ہے یا یوں کہہ لیں کہ ممکنہ طور پر موثر علاج کی کنجی دریافت کرلی۔

خیال رہے کہ جمعے (13 مارچ) کی سہ پہر تک کورونا وائرس سے دنیا کے مختلف ممالک میں ایک لاکھ 31 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں سے 68 ہزار سے زائد صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ اب تک 4925 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

طبی جریدے جرنل سیل میں 2 تحقیقی رپورٹس میں اس بات کی تحقیق کی گئی کہ یہ نیا کورونا وائرس کس طرح خلیات کو متاثر کرتا ہے۔

درحقیقت یہ سمجھنا کہ یہ وائرس کس طرح خلیات میں داخل ہوتا ہے، اس سے ایسے مالیکیولز کو ہدف بنانے میں مدد مل سکے گی جو وائرس کو خلیات میں داخلے میں سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

دونوں رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ نیا وائرس خلیا میں داخلے کے لیے وہی میکنزم استعمال کرتا ہے جو سارز وائرس استعمال کرتا ہے۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دونوں تحقیقی ٹیموں نے اس عمل میں مداخلت کے ذرائع کی بھی جانچ پڑتال کی۔

عام طور پر جب وائرسز کسی خلیے کو متاثر کرتے ہیں تو وہ 2 مرحلوں میں مکمل ہونے والا عمل ہے۔

پہلے یہ وائرس ٹارگٹ خلیے کی سطح پر موجود ایک ریسیپٹر سے کنکشن بناتا ہے اور دوسرے مرحلے میں خلیے کی جھلی میں داخل ہوتا ہے۔

کورونا وائرسز کو پہلے مرحلے میں مخصوص پروٹیزن کی ضرورت ہوتی ہے جن کو اسپائک پروٹٰنز بھی کہا جاتا ہے اور ایک تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وہ انزائمے جو ایس پروٹین کو خلیات کو متاثر کرنے میں مدد دیتے ہیں، ان کو علاج میں ہدف بنانا اس میکنزم کی روک تھام میں مدد دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جاننا کہ نیا نوول کورونا وائرس کن خلیاتی عناصر کو استعمال کرکے داخل ہوتا ہے، اسے روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔

جرمنی کی جارج اگست یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے ایسے شواہد ظاہر کیے ہیں جو بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کے ایس پروٹین اسی ریسیپٹر کو جکڑتے ہیں جس کو سارز وائرس کے ایس پروٹین جکرتے ہیں، اس ریسیپٹر کو ایس 2 کہا جاتا ہے۔

درحقیقت جریدے نیچر میں کچھ دن پہلے ایک مقالے میں بتایا جاچکا ہے کہ ایس 2 وہ ریسیپٹر ہے جو نئے کورونا وائرس کو خلیات کو متاثر کرنے کا موقع دیتا ہے۔

ایس 2 کے کردار پر جرمن ٹیم نے مزید شواہد فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ سارز وائرس کی طرح نئے کورونا وائرس کے ایس پروٹین بھی ایک انزائمے TMPRSS2 کو خلیات متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

مگر محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ ایک دوا Camostat mesylate اس انزائمے کو ایسا کرنے سے روک کر پھیپھڑوں کے خلیات میں نئے کورونا وائرس کے انفیکشن کو بلاک کرتی ہے۔

Camostat mesylate ایک دوا ہے جس کی جاپان میں لبلبے کی سوزش کے عارضے کے علاج کے لیے منظوری دی گئی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی کہ سارز وائرس کے شکار رہنے والے افراد میں موجود اینٹی باڈیز اس نئے کورونا وائرس کو خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں یا نہیں۔

انہوں نے لیبارٹری ماڈلز میں دریافت کیا کہ یہ اینٹی باڈیز نئے کورونا وائرس کے ایس پروٹین کو خلیات کو متاثر کرنے کے عمل کی رفتار کو سست کردیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وبائی وائرس پر اس کی حتمی تصدیق کا عمل ابھی باقی ہے مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ سارز وائرس کے ایس پروٹین کے خلاف اینٹی باڈی کا ردعمل نئے کورونا وائرس کے انفیکشن سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے، جس س ہوسکتا ہے کہ اس وبا کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے۔

جریدے سیل میں واشنگٹن یونیورسٹی کی شائع تحقیق میں بھی ایس 2 کی مدد سے وائرس کا ہدف بننے والے خلیات کے بارے میں مزید شواہد فراہم کیے۔

محققین نے سارز ایس پروٹین کے خلاف کام کرنے والے اینٹی باڈیز کے اثرات کا بھی جائزہ لیا اور دریافت کیا کہ لیبارٹری ماڈل وائرس کے انفیکشن کو 4 مختلف چوہوں کے اینٹی باڈی سیرم سے کم کرنے میں مدد ملی۔

تاہم نئے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی دستیابی سے قبل اس کی مزید آزمائش کی ضرورت ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں