عالمی ادارہ صحت نے چین کی جگہ اب یورپ کو نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا نیا مرکز قرار دے دیا ہے۔

جمعے کو جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹیڈورز ایڈہانوم گھیبریتس نے کہا 'اب روزانہ یورپ میں اس سے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جتنے چین میں اس وبا کے عروج میں سامنے آرہے تھے'۔

انہوں نے کہا کہ ممالک کو اس وبا سے لڑنے کے لیے منظم سوچ کو اختیار کرنا ہوگا 'صرف ٹیسٹنگ تک محدود نہ رہیں، صرف قرنطینہ کو ہی اہمیت نہ دیں، صرف سماجی طور پر الگ تھلگ ہونے کو ترجیح دیں، سب پر عمل کریں، ہر ملک کو دیگر ممالک کے تجربے کو دیکھنا چاہیے اور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہوگا، کیونکہ یہ جان لیوا غلطی ہے، ایسا کسی بھی ملک کے ساتھ ہوسکتا ہے'۔

عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو کووڈ 19 کو عالمگیر وبا قرار دیا تھا جو اب تک ایشیا سمیت تمام براعظموں تک پھیل چکی ہے اور صرف انٹارکٹیکا ہی اس سے مھفوظ ہے۔

چین کے شہر ووہان سے نمودار ہونے والا وائرس 3 ماہ سے بھی کم وقت میں دنیا کے متعدد ممالک میں پھیل گیا جس سے اب تک ایک لاکھ 32 ہزار سے زائد متاثر جبکہ 5 ہزار ہلاک ہوچکے ہیں۔

چین میں نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آچکی ہے اور جمعرات کو صرف 26 نئے کیس سامنے آئے جبکہ یورپ میں راتوں رات کیسز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنگ ڈیزیز اینڈ زونسٹ یونسٹ کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کرکوف نے بتایا 'چین میں وائرس عروج پر گیا اور پھر کمی آئی، اس کا مطلب ہے کہ ہمیشہ ایک موقع ہمارے پاس ہوتا ہے'۔

ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان کے مطابق 'سماجی طور پر کٹ جانے سے وائرس کے پھیلاﺅ کی رفتار میں بہت معمولی کمی آتی ہے تاکہ آپ کا طبی نظام اس پر قابو پاسکیں، اگر آپ کی رفتار تیز نہیں ہوتی تو وائرس ہمیشہ آپ کو پکڑ لیتا ہے'۔

اٹلی اس وقت چین سے باہر کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 15 ہزار سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں، جس کے بعد اسپین میں 43 سو سے زائد، جرمنی میں 31 سو سے زائد جبکہ فرانس میں 28 سو سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔

یورپ کے دیگر ممالک میں بھی کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور امریکا نے یورپی باشندوں کی آمد پر 30 دن کے لیے پابندی عائد کردی ہے تاہم کچھ یورپی ممالک کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔

امریکا میں اب تک 17 سو سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصہ ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتا ہے اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرس بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے اور پھر انہیں دیگر جگہوں پر بھیجنے لگتا ہے، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کا وائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوتا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی۔ ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرس نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

سارس یا مرس جیسے کورونا وائرس آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتے ہیں، سارس وائرس 2000 کی دہائی کی ابتدا میں سامنے آیا تھا اور 8 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں 800 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

مرس 2010 کی دہائی کے ابتدا میں نمودار ہوا اور ڈھائی ہزار کے قریب افراد کو متاثر کیا جس سے 850 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں