جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم کورٹ کے جج بن گئے

17 مارچ 2020
چیف جسٹس نے جسٹس مظاہر علی اکبر سے ان کے عہدے کا حلف لیا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
چیف جسٹس نے جسٹس مظاہر علی اکبر سے ان کے عہدے کا حلف لیا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جس کے بعد سپریم کورٹ میں 17 ججز کی تعداد مکمل ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے سیریمونیل ہال میں منعقدہ ایک سادہ سی تقریب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے حلف لیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا تقرر سپریم کورٹ کے جج کی اس خالی نشست پر ہوا ہے جو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس گلزار احمد نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا

واضح رہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کی صدارت میں 4 مارچ کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن پاکستان کے اجلاس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو عدالت عظمیٰ کے جج کی حیثیت نے تعینات کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

بعد ازاں ججز کے تقرر سے متعلق 8 رکنی 2 طرفہ کمیٹی کی جانب سے 12 مارچ کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی تعیناتی کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی۔

خیال رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی لاہور ہائی کورٹ (ایل ایس سی) کے سینئر ترین جج رہ چکے ہیں۔

تقریب حلف برداری میں ججز کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سینئر وکلا، قانونی افسران اور لا اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کے افسران شریک ہوئے جبکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار خواجہ داؤد احمد نے تقریب حلف برداری کی کارروائی کے فرائض انجام دیے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جو گوجرانوالہ کے معروف سید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں وہ 19 فروری 2010 میں لاہور ہائی کورٹ میں تعینات ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس گلزار کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری

اس سے قبل وہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں بطور ایڈووکیٹ پریکٹس کرتے تھے۔

ان کی پریکٹس اور کنسلٹنسی میں مجرمانہ قانون، انسداد دہشت گردی قانون، آئینی قانونی، ثالثی (تنازع کے متبادل حل)، جائیداد کا قانون، زمین کا قبضہ، لینڈ ریونیو، خاندانی قانون، کسٹمز، ایکسائز، انکم ٹیکس، انشورنس فنانس، انٹیلیکچوئل پراپرٹر اور مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی، توانائی، سماجی شعبے کی ترقی، سول سوسائٹی کو بااختیار بنانے، قانونی تعلیم اور اصلاحات، شفافیت، قانونی، عدالتی اصلاحات ، وغیرہ شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں