اور اب کورونا وائرس کی بَلا پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو بھی نگل گئی۔ منگل کو پہلے سیمی فائنل کے آغاز سے صرف چند گھنٹے پہلے پی ایس ایل سیزن 5 ملتوی کرنے کا اعلان کردیا گیا جو اگرچہ بہت مایوس کُن فیصلہ تو ہے لیکن ساتھ ساتھ بہت ضروری بھی تھا۔

پاکستان میں گزشتہ 2 سے 3 دنوں میں جس تیزی سے اس وائرس کے مریض سامنے آئے ہیں اس کے بعد یہ قدم اٹھانا ناگزیر تھا بلکہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ کے حوصلے کو داد دینی چاہیے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ 5 کے آغاز سے پہلے سارے خدشات امن و امان کے حوالے سے تھے، لیکن وہ تمام خدشات تو جلد ہی ہوا ہو گئے۔ لیگ کا آغاز شاندار تھا اور یہ مختلف نشیب و فراز عبور کرتی ہوئی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ کورونا وائرس کے خوف نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔

سال کے ان ایّام میں ہر محفل میں گفتگو کا محور صرف پی ایس ایل ہوتی ہے، لیکن اس سال ہر طرف کورونا وائرس کا ہنگامہ تھا۔ یہ شور بے جا بھی نہیں ہے کیونکہ چین سے نکلنے والا یہ وائرس اب تک دنیا بھر میں 1 لاکھ 83 ہزار سے زیادہ افراد کو لپیٹ میں لے چکا ہے، جن میں سے 7 ہزار سے زیادہ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ خود پاکستان میں اس کے مریضوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے اور تادمِ تحریر 200 کے قریب مریض سامنے آچکے ہیں اور چند ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان میں عالمی وبا سے اب تک 200 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں، فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں عالمی وبا سے اب تک 200 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں، فوٹو: اے ایف پی

یہ کورونا وائرس کا خوف ہی تھا کہ پی ایس ایل انتظامیہ، ٹیموں، اسپانسرز، براڈ کاسٹرز اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا اور دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ لینا پڑا کہ سیزن کو مزید جاری رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے، اور اسے ملتوی کر دینا چاہیے۔

اب لگتا ہے کہ کمزور ٹیموں کے ساتھ اور خالی میدانوں میں کھیلنے سے بہتر تھا کہ یہ فیصلہ پہلے کرلیا جاتا، کم از کم لیگ کی ساکھ تو بچ جاتی اور وبائی صورتِ حال میں کئی لوگوں کی جانیں بھی خطرے سے دوچار نہ ہوتیں۔

بہرحال، سیزن کے یوں اچانک ملتوی ہوجانے سے دل ٹوٹ سا گیا ہے۔ اتنے شاندار اور یادگار سیزن کا اختتام ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پہلی بار ہماری لیگ مکمل طور پر ہمارے میدانوں پر ہوئی۔ کراچی اور لاہور کے بڑے مراکز ہی نہیں بلکہ راولپنڈی اور ملتان جیسے شہروں میں بھی میچ کھیلے گئے اور کیا خوب کھیلے گئے۔

ملتان سلطانز

ملتان کے تماشائیوں کا جوش و خروش تو مثالی تھا ہی لیکن ان کی ٹیم کی کارکردگی بھی حیران کن تھی۔ ملتان سلطانز کو 10 میں سے صرف 2 میچوں میں شکست ہوئی اور انہوں نے بے عیب و بے مثال کارکردگی دکھائی۔

کراچی کنگز

کراچی کنگز نے بھی بڑے بڑوں کو حیران کیا لیکن پانچویں سیزن میں نمایاں کارکردگی کے پیچھے 2 بڑے کردار تھے، ایک کوچ ڈین جونز، وہی کہ جن کی زیرِ تربیت اسلام آباد یونائیٹڈ ایک نہیں 2 مرتبہ چیمپئن بنا۔ وسیم اکرم کی موجودگی سے بھی ٹیم میں ایک نئی جان آئی۔ حالانکہ ٹیم کراچی کی خامیاں واضح تھیں، جیسا کہ فنشر کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی گئی۔ لیکن مجموعی طور پر کراچی نے سیزن میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور پوائنٹس ٹیبل پر دوسرا نمبر حاصل کیا۔

ڈین جونز اور وسیم اکرم کی موجودگی سے کراچی کنگز کی کارکردگی نمایاں نظر آئی۔ فوٹو: اے ایف پی
ڈین جونز اور وسیم اکرم کی موجودگی سے کراچی کنگز کی کارکردگی نمایاں نظر آئی۔ فوٹو: اے ایف پی

لاہور قلندرز

لاہور قلندرز کا آغاز ویسا ہی تھا جس کے لیے وہ مشہور ہیں، یا بدنام بھی کہا جاسکتا ہے، یعنی پے در پے شکستیں۔ لیکن اس بار لاہوریوں نے بدترین حالات میں بھی ٹیم کا حوصلہ خوب بڑھایا اور بالآخر لاہور قلندرز آخری 5 میں سے 4 میچوں میں فتوحات کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر آگئے۔ یہ بلاشبہ پی ایس ایل تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔

پشاور زلمی

پشاور زلمی گرتے، پڑتے اور سنبھلتے اور آخر میں دوسری ٹیموں کے نتائج کی بیساکھی استعمال کرکے بالآخر سیمی فائنل تک پہنچ گئے، لیکن سچ پوچھیے تو ماضی کے مقابلے میں پشاور کی یہ کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ اس بار ٹیم زلمی کسی اندرونی خلفشار کا شکار نظر آئی اور اس کا اظہار سیزن کے درمیان کپتان ڈیرن سیمی کو قیادت سے خارج کرنے سے ہوتا ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ / کوئٹہ گلیڈی ایٹرز

لیکن پشاور سے بھی بھیانک صورتِ حال اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی رہی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ 2 مرتبہ کی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ سب سے پہلے باہر ہوئی جبکہ دفاعی چیمپئن کوئٹہ کا حال بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ یعنی پچھلے 4 سیزنز میں 3 مرتبہ چیمپئن بننے والی دونوں ٹیمیں اس بار اگلے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ پائیں۔

گو کہ پی ایس ایل سیزن 5 کی داستان ادھوری ہی رہی لیکن اگر مجموعی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ملتان سلطانز چیمپئن بننے کے حقدار نظر آتے ہیں جبکہ حالیہ کارکردگی کو دیکھیں تو لاہور کا ماضی کی زنجیریں توڑ کر ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہونا عظیم داستان شمار ہوگا۔

ویسے کورونا وائرس جس تیزی سے دنیا کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے، اس کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس وبا کے کمزور پڑجانے کے بعد بھی حالات جلد معمول پر آئیں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کہ اگلے ایک یا 2 مہینوں میں ہم پی ایس ایل کے باقی ماندہ میچ کروانے کے قابل ہوجائیں گے، محض دیوانے کا خواب ہے۔ اس لیے بادل نخواستہ ہمیں پی ایس ایل 5 کے فاتح کا اعلان تو کرنا ہی پڑے گا، جس طرح آسٹریلیا کی شیفلڈ شیلڈ میں کیا گیا ہے۔

پچھلے 4 سیزنز میں 3 مرتبہ چیمپئن بننے والی دونوں ٹیمیں اس بار اگلے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ پائیں،فوٹو: اے ایف پی
پچھلے 4 سیزنز میں 3 مرتبہ چیمپئن بننے والی دونوں ٹیمیں اس بار اگلے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ پائیں،فوٹو: اے ایف پی

شیفلڈ شیلڈ آسٹریلیا کا فرسٹ کلاس ڈومیسٹک ٹورنامنٹ ہے جو کھیلوں کے کئی بڑے ایونٹس کی طرح کورونا وائرس کی زد میں آیا ہے۔ کرکٹ آسٹریلیا نے فائنل منسوخ کرتے ہوئے نیو ساؤتھ ویلز کو چیمپئن قرار دیا ہے کیونکہ اس نے سیزن میں سب سے زیادہ 9 میں سے 6 میچوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس فارمولے کے تحت اگر پاکستان سپر لیگ انتظامیہ کو پی ایس ایل 5 کے چیمپئن کا اعلان کرنا پڑا تو وہ نام صرف ایک ہوگا ملتان سلطانز!

تبصرے (0) بند ہیں