عالمی وبا کی شکل اختیار کرجانے والا نیا نوول کورونا وائرس 180 ممالک تک پھیل چکا ہے اور اب تک ڈھائی لاکھ کے قریب افراد متاثر جبکہ 10 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔

فی الحال اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کووڈ 19 کا کوئی علاج موجود نہیں مگر دنیا بھر میں سائنسدانوں کی جانب سے ویکسین کی تیاری کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کو بھی آزمایا جارہا ہے۔

اور ایسا لگتا ہے کہ ایک 75 سال پرانا طریقہ علاج اس نئے وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ ہے ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی دوا کلوروکوئن ۔

کیا واقعی یہ دوا کورونا وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوسکے گی؟

جنوبی فرانس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اس دوا کے ساتھ مریضوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس تحقیق میں شامل 36 میں سے 20 مریضوں کو یہ دوا استعمال کرائی اور 6 دن بعد کلوروکوئن استعمال کرنے والے 70 فیصد مریض صحت یاب ہوگئے کیونکہ وائرس ان کے خون نمونوں سے غائب ہوگیا۔

نتائج پر کس حد تک یقین کیا جاسکتا ہے؟

سائنسدانوں نے اسے اہم کامیابی قرار دیا ہے مگر چونکہ یہ تحقیق بہت کم مریضوں پر ہوئی تھی تو زیادہ بڑے پیمانے پر اس کی آزمائش ہی دوا کے اثر کے حوالے سے سائنسی طور پر زیادہ قائل کرنے والی ہوگی۔

کہیں اور اس کو آزمایا جارہا ہے؟

درحقیقت صرف فرانس نہیں بلکہ آسٹریلیا اور چین میں بھی اس دوا کو مریضوں کے لیے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں، جس کے بعد توقع ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں زیادہ بڑے پیمانے پر اس کا کلینیکل ٹرائل شروع ہوسکتا ہے۔

امریکا میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس دوا کی آزمائش کی منظوری دی ہے تاہم اس ادارے بعد بیان کی تردید کردی تھی۔

برطانیہ میں بھی اس دوا کو ایکسپورٹ کنٹرول فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔

یہ دوا کورونا وائرس کے خلاف کیسے کام کرسکتی ہے؟

اس دوا کا استعمال 1945 سے ملیریا اور چند دیگر امراض کے خلاف ہورہا ہے جسے حاملہ خواتین اور بچے بھی استعمال کرسکتے ہیں، جبکہ سستی ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب بھی ہوتی ہے۔

کچھ لیبارٹری کی سطح میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ یہ دوا کورونا وائرس کے خلاف بھی موثر ثابت ہوسکتی ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی کے وبائئی امراض کے پروفیسر روبن مے کے مطابق دوا کے اثر کو ابھی پوری طرح سمجھا نہیں جاسکا مگر لگتا ہے کہ یہ وائرس کے میزبان خلیات کے حوالے سے اثرات مرتب کرتی ہوگی۔

یعنی یہ دوا وائرس کی آماجگاہ بننے والی جگہ کی تیزابیت کو بدل دیتی ہوگی تاکہ اس کی نشوونما نہ بڑھ سکے، ایک اور امکان یہ ہے کہ اس دوا سے وائرس کی خلیات کو جکڑنے کی صلاحیت پر ضرب لگائی جاتی ہو۔

ڈاکٹر اسے کووڈ 19 کے خلاف کیوں آزما رہے ہیں؟

کئی برسوں سے مختلف تحقیقی رپورٹس میں اس دوا کے وائرس ختم کرنے کے اثرات کی بات سامنے آئی ہے جبکہ اسے 2002 میں ابھرنے والی سارز وائرس کی وبا کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا مگر اس کے ختم ہونے کی وجہ سے زیادہ توجہ کا مرکز نہیں بن سکی، مگر یہا نیا کورونا وائرس سارز وائرس سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر سائنسدانوں نے اس دوا کی آزمائش موجودہ وبا کے دوران شروع کی ہے۔

تو ہر ملک میں اسے کیوں نہیں آزمایا جارہا؟

یہ دوا سستی اور آسانی سے تیار ہونے والی ہے مگر دنیا بھر میں ڈاکٹروں کی جانب سے اس وائرس کے مریضوں کے لیے اس کا استعمال کیوں نہیں ہورہا؟

درحقیقت اس کے لیے بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائل کی ضرورت ہے تاکہ اس علاج کے معمول کا حصہ بنانے کی منظوری دی جاسکے، یہ دوا استعمال کے لیے محفوظ سمجھی جاتی ہے اور نئی بیماریوں کے لیے اس وقت دستیاب ادویات کا استعمال پہلا قدم ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے سائنسدانوں کو جانوروں اور تحفظ کے ٹرائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

جیسا ابھی محدود پیمانے پر اسے مریضوں پر آزمایا بھی جارہا ہے مگر تمام مریضوں کے لیے اس کے استعمال کی اجازت بڑے پیمانے پر آزمائش اور پھر ریگولیٹری منظوری سے ہی ممکن ہے۔

مگر یہ واحد دوا نہیں جس کی آزمائش کی جارہی ہے درحقیقت متعدد ادویات کو اس حوالے سے ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

فلو کے لیے استعمال ہونے والی دوا فیویپیراویر

جاپان میں فلو کے لیے تیار ہونے والی اس دوا کو چین میں 340 مریضوں پر آزمایا گیا۔

جن مریضوں کو یہ دوا استعمال کرائی گئی ان میں ٹیسٹ مثبت آنے کے 4 دن بعد وائرس ختم ہوگیا، جبکہ اس دوا کے بغیر مرض کی علامات کے لیے دیگر ادویات کے استعمال سے صحت یابی میں اوسطاً 11 دن درکار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایکسرے سے بھی اس نئی دوا کے استعمال سے 91 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کی حالت میں بھی بہتری کی تصدیق ہوئی، جبکہ دیگر ادویات میں یہ شرح 62 فیصد کے قریب ہوتی ہے۔

اس دوا کو فیوجی فلم ٹویاما کیمیکل نے 2014 میں تیار کیا تھا تاہم اس نے چینی دعویٰ پر کوئی بیان جاری کرنے سے انکار کیا۔

ایبولا کے لیے تیار ہونے والی ریمڈیسیویر

اس دوا کو بنیادی طورر پر ایبولا کے علاج کے لیے تیار کیا گیا تھا مگر یہ نئے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اہم ترین دوا کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

سارز اور مرس جیسے کورونا وائرسز کے خلاف اسے موثر پایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے چین اور اس کے بعد امریکا اور ایشیا کے مختلف ممالک میں اس دوا کے استعمال پر متعدد ٹرائلز ہورہے ہیں، جن کے نتائج اپریل میں آنا شروع ہوں گے۔

ایچ آئی وی کے لیے تیار ہونے والی کالیٹرا

یہ بنیادی طور پر دو اینٹی وائرل ادویات لوپیناویر اور ریٹوناویر کا امتزاج ہے جو ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، مختلف رپورٹس میں اسے کووڈ 19 کے علاج کے لیے بھی حوصلہ افزا انتخاب قرار دیا گیا۔

تاہم گزشتہ دنوں یہ توقعات اس وقت ماند پڑگئیں جب 200 سنگین حد تک بیمار مریضوں میں اس کے استعمال سے کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوسکا، تاہم یہ تحقیق اس دوا کی آزمائش کے لیے حتمی نہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ دوا معتدل علامات والے مریضوں میں زیادہ موثر ہو۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے مختلف ممالک میں ادویات کی ٹرائل کی فہرست میں اسے بھی شامل کیا ہے جو اس ہفتے ہی شروع ہورہا ہے۔

اینٹی باڈی تھراپیز

چین میں ڈاکٹر نے کچھ سنگین حد تک بیمار مریضوں کا علاج صحت مند مریضوں کے بلڈپلازما سے کیا اور یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی تاریخ اسپینش فلو کی عالمی وبا سے جاملتی ہے، جو 1918 میں سامنے آی تھی۔

اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ وائرس کے شکار افراد کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو اس انفیکشن کی روک تھام میں مدد دے سکتی ہیں۔

امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے زور دیا کہ اس طریقہ کار کو اپنانے کے لیے کوئی تحقیق یا پیشرفت کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے چند ہفتوں میں اپنایا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں روایتی طریقہ کار انحصار کرنا ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس مقصد کے لیے کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو صحت یابی کے بعد خون کا عطیہ دینا ہوگا، اگرچہ یہ بحالی صحت کا مرحلہ ہوتا ہے مگر اس دوران بلڈ سیرم (خون کا پلازما) میں بڑی مقدار میں ایسی اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو اس نئے کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں۔

ایک بار جب جسم وائرس کے خلاف ردعمل کے قابل ہوجائے گا تو ایسی اینٹی باڈیز کئی ماہ تک خون میں گردش کرتی رہیں گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ دورانیہ انفیکشن کے بعد کئی برسوں کا ہو۔

محققین کے خیال میں یہ طریقہ کار صرف صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ان اینٹی باڈیز کو ایکسرٹ اور پراسیس کرنے کے بعد دیگر افراد کے جسموں میں انجیکٹ کرکے انہیں مختصر المدت تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، جیسے کسی سنگین بیماری کے شکار افراد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، متاثرہ فرد کے صحت مند گھروالوں کے لیے یا طبی عملے کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انٹرفیرون بیٹا

برطانیہ کی بائیوٹیک کمپنی Synairgen کو کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے پھیپھڑوں کے امراض کی دوا کی منظوری دی گئی۔،

اس دوا میں موجود مرکب انٹرفیرون بیٹا پھیپھڑوں کے وائرس کے خلاف قدرتی دفاعی نظام سے تشکیل دیا گیا ہے اور بنیادی طور پر اسے پھیپھڑوں کے مرض سی او پی ڈی کے لیے تیار کای گیا تھا۔

مگر ماہرین کو توقع ہے کہ یہ دوا جسم کی وائرس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کو بہتر بنائے گی، خصوصاً ایسے افراد کے لیے مفید ہوگی جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوگا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Martin Masih Mar 20, 2020 08:36pm
کیا یہ دوا پاکستان میں دستیاب ہے؟ اگر ہے، تو بتلائیے کہ چیچوں کی ملیاں میں کہاں سے ملے گی؟ پیشگی شکریہ۔