ڈی جی نیب کی ڈگری سے متعلق بات کرنے پر میر شکیل کو گرفتار کیا گیا، اعتزاز احسن

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2020
لاہور ہائیکورٹ میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست پر وکیل دفاع نے دلائل مکمل کرلیے - فائل فوٹو:اے ایف پی
لاہور ہائیکورٹ میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست پر وکیل دفاع نے دلائل مکمل کرلیے - فائل فوٹو:اے ایف پی

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اراضی الاٹمنٹ کیس میں گرفتار جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر وکیل دفاع نے دلائل مکمل کرلیے۔

عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمٰن اور ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت کی جہاں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل اعتزاز احسن اور امجد پرویز نے دلائل دیے۔

اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ 5 مارچ کو نیب نے میر شکیل الرحمٰن کو طلب کیا اور وہ پیش ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف 34 سال پرانا کیس بنایا ہے، اتنے سال نیب نے کچھ نہیں کیا اور کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام سمری، ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہیں اور تمام الاٹمنٹ قانون کے مطابق ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: جنگ گروپ کے چیئرمین، پبلشر میر جاوید الرحمٰن انتقال کرگئے

انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کو شکایت کی تصدیق کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن گرفتار کر لیا گیا، میر شکیل الرحمٰن کا کیس سول کیس ہے نیب کو اس کی تحقیقات بھی اختیار نہیں ہے۔

وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ’ایک ویڈیو بھی مارکیٹ میں آئی تھی، میں اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، معزز ججز خود ہی وہ ویڈیو دیکھ لیں میں زیادہ اس پر بات نہیں کروں گا‘۔

انہوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن ایک براڈ کاسٹر ہیں اور بڑا میڈیا گروپ بھی چلاتے ہیں، انہیں ایک مخصوص واقعے کے بعد ٹارگٹ کر کے گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایک صاحب کی ویڈیو چلانے پر اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب کی ڈگری سے متعلقبات کرنے پر میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ’میر شکیل کی صرف رہائی چاہتے ہیں، ہم یہ کیس ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سارا کیس لاہور میں ہے میر شکیل الرحمٰن لاہور میں پیش ہوئے تو چیئرمین نیب نے اسلام آباد سے کیسے وارنٹ جاری کر دیے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’54 کنال میں سے 35 کنال پہلے ہی نہر کے کنارے میر شکیل الرحمٰن کی زمین تھی، نجی شخص محمد علی کے ورثا سے انہوں نے زمین لی تھی، نیب بتا دے کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص سے زمین لیتا ہے تو اس میں غیر قانونی کیا ہے‘۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’جس شخص نے زمین میر شکیل الرحمٰن کو فروخت کی ہے اگر وہ کہے کہ کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو پھر کیس بن سکتا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ میر شکیل الرحمٰن کو ضمانت پر رہا کر دیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ’نیب اپنی تحقیقات جاری رکھے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں تاہم تحقیقات اور انکوائری سے پہلے کیسے وارنٹ جاری کیے جا سکتے ہیں، میر شکیل الرحمٰن کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیا جائے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’نیب تحقیقات جاری رکھے میر شکیل الرحمٰن تعاون کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف اراضی کیس میں نواز شریف کو طلب کرلیا

اعتزاز احسن نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ میر شکیل کو رہا کیا جائے۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے 7 اپریل کو کیس میں نیب کے وکیل کو دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری

خیال رہے کہ 12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

ترجمان نیب نوازش علی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے جمعرات کو دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1986 میں غیر قانونی طور پر یہ زمین میر شکیل الرحمٰن کو لیز پر دی تھی۔

واضح رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔

دوسری جانب جنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے، جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔

بعد ازاں گرفتاری کے اگلے ہی روز نیب نے انہیں احتساب عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا جس میں 25 مارچ کو ہونے والی پیشی پر 13 روز کی توسیع کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں