بھارتی رکن پارلیمان کے مسلمانوں کیخلاف متعصبانہ بیان پر عمران خان کی تنقید

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2020
رکن پارلیمان سبرامانیا سوامی کو متعصبانہ بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے—تصویر: دی نیو انڈین ایکسپریس
رکن پارلیمان سبرامانیا سوامی کو متعصبانہ بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے—تصویر: دی نیو انڈین ایکسپریس

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان سبرامانیا سوامی کو متعصبانہ بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمان، ان حقوق کے مستحق نہیں جو ملک میں رہنے والے دیگر افراد کے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس نیوز کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کردہ ایک ویڈیو میں جب بی جے پی کے رکن پارلیمان سے بھارت کے متنازع شہریت قانون کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اسلامی نظریات کی وجہ سے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں ہمیشہ مسائل ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر (کسی ملک میں) مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ ہوجائے تو وہ ملک خطرے میں ہے جس پر صحافی آئیزوبیل یینگ نے نشاندہی کی کہ ان کا بیان نفرت انگیز معلوم ہورہا ہے'۔

جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اسے نفرت کہنا آسان ہے لیکن میں انہیں بھارت میں داخل نہ ہونے دینے کا کہہ کر رحم دلی کا مظاہرہ کررہا ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بی جے پی کے نفرت انگیز منصوبے اور خراب ہوتی صورتحال

انہیں جب کہا گیا کہ بھارت کے آئین کی دفعہ 14 بھارت کے تمام شہریوں کے لیے برابر حقوق یقینی بناتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مذکورہ دفعہ کی غلط تشریح ہے اور کہا کہ ’قانون برابر کی سطح کے لوگوں کے لیے برابری کے حقوق یقینی بناتا ہے‘۔

جس پر صحافی نے سوال کیا کہ ’کیا تمام لوگ برابر نہیں؟ بھارت میں مسلمان برابر نہیں؟‘ تو رکن پارلیمان کا کہنا تھا کہ ’نہیں تمام لوگ برابر نہیں، مسلمان برابری کے زمرے میں نہیں آتے‘۔

مذکورہ مکمل انٹرویو اتوار کے روز نشر کیا جائے گا۔

۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے وائس نیوز کی اس ویڈیو کلپ کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی قیادت کھلے عام مسلمان کے خلاف ایسے بات کررہی ہے جس طرح نازی یہودیوں کے بارے میں کیا کرتے تھے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی حیدر زیدی نے بھی اس ویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے سبرامانیا سوامی کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ بالکل فاشسٹ اور نسل پرست کے زمرے میں آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'مسلمانوں سے نفرت ہی حکمران جماعت بی جے پی کا مقصد اور زندگی ہے'

بی جے پی رہنما کی جن افراد نے مذمت کی ان میں معاشی تجزیہ نگار اور مصنف سلمان انیس سوز بھی شامل ہیں جن کا کہنا تھا کہ ’سوامی ایک تلخ آدمی ہے اور اپنی ہی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے‘۔

علاوہ ازیں ’دی کاروان‘ کے ایڈیٹر ونود کے جوزف کا کہنا تھا کہ شہریت قانون، دہلی فسادات اور کورونا وائرس کی وجہ سے غریبوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت ’اس حکمرانی کا عملی مظاہرہ بھارت میں جاری ہے؟‘

خیال رہے کہ سبرامانیا سوامی متعدد مرتبہ متنازع شہریت قانون کا دفاع کرچکے ہیں اور اس سے قبل انہوں نے کانگریس رہنما سونیا گاندھی کو یہ کہنے پر ’حقیقی نازی‘ کہا تھا جس میں سونیا گاندھی نے نئے شہریت قانون کو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا تھا۔

سونیا گاندھی کی جانب سے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال پر تنقید کرنے پر بھارتی رکن پارلیمان نے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ’نازی فوجی کی بیٹی حقیقی نازی ہے جو اس جھوٹ پر بغاوت کررہی ہے کہ شہریت قانون مسلمان مخالف ہے، اگر آپ ہندووں کی حمایت کرنے والے ہیں تو آپ لازمی طور پر مسلمان مخالف ہوں گے، اور اگر مسلمانوں کی حمایت کرنے والے ہیں تو آپ سیکولر ہوں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: دہلی الیکشن: ’جے شری رام‘ کے سیاسی نعرے کو ’جے بجرنگ

اس کے علاوہ بھی سبرامانیا سوامی متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ شہریت قانون سے بھارتی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بھارتی اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بنگلور میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’بہت سے افراد شہریت قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن انہوں نے مسودہ نہیں پڑھا، میرے خیال میں کانگریس کے زیادہ تر افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ بل کس بارے میں ہے؟ جو لوگ اپنے مذہب کی وجہ سے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت آئے وہ اب بھی غیر قانونی پناہ گزین ہیں، نہ تو ان کو نوکری ملتی ہے نہ ان کے پاس دستاویزات ہیں‘۔

بی جے پی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ’70 سالوں سے کانگریس انہیں شہریت دینے کی بات کررہی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا، ہماری مسلمان اقلیت شہریت قانون کی وجہ سے متاثر نہیں ہوں گی کیوں کہ مسلمان پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے مذہب کی وجہ سے نہیں آئے، مسلمان اس فہرست میں شامل نہیں۔

مزید پڑھیں: دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا، امریکی اخبار

خیال رہے کہ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب بھارت میں متنازع شہریت قانون پر پرتشدد فسادات جاری تھے۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے فسادات سے 50 افراد ہلاک ہوئے اور شواہد سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شہر کی پولیس ’اجتماعی طور پر مسلمانوں کے خلاف‘ اور ہندو ہجوم کی مدد کررہی تھی جو مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں