سندھ حکومت ڈینیئل پرل کیس کا فیصلہ چیلنج کرے گی، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2020
وزیر خارجہ نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے تشویش پیدا ہوئی ہے—تصویر: فیس بک
وزیر خارجہ نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے تشویش پیدا ہوئی ہے—تصویر: فیس بک

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اب یہ متعلقہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں یا کالعدم قرار دیتے ہیں۔

دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ڈینیئل پرل کیس کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات فطری ہیں۔

خیال رہے کہ 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی کے اغوا کے بعد قتل کے کیس میں ملزمان کی اپیلوں پر 18 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے 3 ملزمان کو رہا جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال میں قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس پر امریکا نے عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں اسے ’ہر جگہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والے افراد کی توہین‘ قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید

امریکا کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے سماجی روبط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ ’جو افراد ڈینیئل کے گھناؤنے اغوا اور قتل کے ذمہ دار ہیں انہیں انصاف کے پورے پیمانے کا سامنا کرنا چاہیے‘۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ (ڈینیئل پرل) ایک نمایاں صحافی تھے انہیں پہلے تاوان کے لیے اغوا کیا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا، یہ خبر پوری دنیا میں پھیلی اور پاکستان پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور ہمیں ہدف تنقید بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈینیئل پرل کیس میں ملزمان گرفتار ہوئے مقدمہ چلا اور بالآخر تین ملزمان کو قید کی سزا جبکہ مرکزی ملزم شیخ عمر کو سزائے موت سنائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے، تین ملزمان کو بری جبکہ شیخ عمر کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری کیے اس فیصلے سے تشویش پیدا ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ محکمہ داخلہ سندھ نے پبلک سیفی ایکٹ کے تحت 90 روز کیلئے ملزمان کی نظر بندی کا فیصلہ کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپیل کا فورم موجود ہے اب یہ متعلقہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں یا کالعدم قرار دیتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، پوری قوم نے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل لڑائی لڑی اور اسے شکست دی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

خیال رہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کررہے تھے۔

جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت میں ملزمان کے وکلا رائے بشیر اور خواجہ نوید احمد نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ استغاثہ ان کے موکل کے خلاف کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا اور استغاثہ کے زیادہ تر گواہ پولیس اہلکار تھے جن کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

ملزمان کے وکلا کا مزید کہنا تھا کہ اپیل کنندہ نسیم اور عادل شیخ پر ای میلز اور میسیجز کے ساتھ لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی زبردستی ظاہر کی گئی جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ان کے اعترافی بیانات میں بھی جھول ہیں اور وہ رضاکارانہ طور پر نہیں دیے گئے۔

وکلا کا مزید کہنا تھا کہ مدعی نسیم سے 11 فروری 2002 کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی ظاہر کی گئی جبکہ کمپیوٹر ماہر رونلڈ جوزف نے کہا تھا کہ انہیں 4 فروری کو کمپیوٹر ویریفکیشن کے لیے دیا گیا تھا جس کے بعد 6 روز تک انہوں نے لیپ ٹاپ کا جائزہ لیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

وکلا کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ثبوتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جبکہ عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کی سزا کالعدم قرار دی جائے۔

لہٰذا 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

احمد عمر سعید شیخ کیونکہ پچھلے 18 سالوں سے جیل میں تھے لہٰذا ان کی 7 سال کی سزا پورے وقت سے شمار کیے جانے کے بعد ان کی بھی رہایئ متوقع تھی۔

تاہم 3 اپریل کو بڑی پیش رفت سامنے آئی اور محکمہ داخلہ سندھ نے سی آئی اے کے ڈی آئی جی کی درخواست پر چاروں ملزمان کو مزید 90 روز کے لیے دوبارہ حراست میں لینے کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں