ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ عوام کے سامنے آگئی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

تاہم ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم اور تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین ’رپورٹ منظر عام پر لائے جانے کے سنگین نتائج سے خوفزدہ تھے‘۔

وزیراعظم رپورٹ دیکھ کر اس بات پر خوش ہوئے کہ انکوائری کمیٹی نے سال 19-2018 کی برآمدات اور اس پر دی گئیں سبسڈی کی تحقیقات کی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ چند سالوں کے دورن چینی کی پیداوار مقامی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی جس کی وجہ سے اس پہلو کی تحقیقات کرنا اور اسے شامل کرنا ضروری تھا کہ چینی کی برآمدات میں دی گئی سبسڈی، مقامی سطح پر چینی کی قیمت پر مرتب ہونے والے اثرات اور ان سبسڈیز سے کس نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

تاہم انکوائرہ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ بھی پیش گوئی کی گئی تھی کہ کرش کیے گئے گنے کی مقدار گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہوگی اور ہمارے پاس رواں سال کے ضرورت کے مطابق کافی چینی ہوگی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کردی

تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔

ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔

کس نے کتنا فائدہ اٹھایا

کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہےْ۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔

یہ بھی پڑھیں:جہانگیر ترین نے وسیم بادامی اور شاہزیب خانزادہ کو ہتک عزت کے نوٹسز بھیج دیے

کمیٹی نے نشان دہی کی ہے کہ اضافی خریداری اور سٹہ سے رمضان تک چینی کی قیمت فی کلو 100 روپے تک جاسکتی ہے۔

کمیٹی نے شبہ ظاہر کیا کہ شوگر ملز مالکان اور چینی کے ہول سیل ڈیلر اس پریکٹس کے پیچھے ہیں، تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا کمیشن ثبوت اور ملوث فریقین کو بے نقاب کرسکتا ہے۔

کمیٹی نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جو نہ صرف 2019 میں چینی کی کم پیداوار کے حوالے سے جائزہ لینے میں ناکام ہوا بلکہ اس نے چینی کی قیمت میں اچانک اضافے کے حوالے سے کی گئی نشان دہی کو بھی نظر انداز کیا کیونکہ چینی کی برآمد کے ابتدائی پانچ ماہ میں ہی چینی کی فی کلو قیمت میں 16 سے 17 روپے اضافہ ہوا تھا۔

کمیٹی کی جانب سے گنے کی قیمت فی کلو کم ازکم 190 روپے کرنے پر بھی غور کیا گیا تاہم گنے کی فراہمی کی شرح سپورٹ پرائس سے زیادہ تھی، 2020 کے لیے گنے کی قیمت 217 روپے فی کلو تھی تاہم کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ گنے کی قیمت میں اضافے کا چینی کے بحران یا قیمت میں اضافے سے تعلق نہیں ہے۔

کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ گنے کی کاشت کرنے والے چند بڑے گروپس اور شوگر ملز مالکان کا آپس میں مفاد ہے جس کو کمیشن سامنے لائے گا۔

ایک اضافی سوال پر کمیٹی نے گزشتہ 5 برس تک دی گئی سبسڈی سے متعلق دستاویزات کے ساتھ جواب دیا ہے کہ تقریباً 25 ارب روپے دیے گئے جبکہ گزشتہ برس 3 ارب روپے سبسڈی دی گئی۔

دستاویزات کے مطابق 'آر وائی کے' گروپ سب سے زیادہ فائدے میں رہا جس کو مجموعی طور پر 4 ارب، 'جے ڈی ڈبلیو' کو 3 ارب، ہنزہ گروپ کو 2 اراب 80 کروڑ، فاطمہ گروپ کو 2 ارب 30 کروڑ، شریف گروپ کو ایک ارب 40 کروڑ اور اومنی کو 90 کروڑ 10 لاکھ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہےْ۔

مزید پڑھیں:جہانگیر ترین کے سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے 21 فروری کو ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کردی تھی۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری نوٹی فکیشن میں دیگر اراکین کے نام بھی بتائے گئے جن میں ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کے علاوہ دیگر اراکین میں ‘انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا نمائندہ جو بنیادی اسکیل 20 یا 21 سے کم نہ ہو اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انسداد بدعنوانی پنجاب’ شامل تھے۔

کمیٹی کو تحقیقات کے لیے 13 پہلو بتائے گئے تھے جن کی تفتیش کرکے رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ سامنے آئے تو کمیٹی کو اس کی تحقیقات کا بھی مینڈیٹ دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں برس کے شروع میں ہی ملک میں پہلے آٹے کا بحران آیا تھا اور اسی دوران چینی کی قیمت میں بھی اچانک اضافہ ہوا تھااور انہی دو ماہ کے دوران قیمت بڑھنا شروع ہوئی تھی جس کی وجہ سے منافع خوروں کو فائدہ پہنچا۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے ای سی سی میں معاملہ جانے سے قبل ہی سمری کی منظوری دی تھی تاکہ 3 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی کی برآمد فوری روکی جاسکے اور 3 لاکھ ٹن چینی نجی شعبے کے ذریعے درآمد کی جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں