واشنگٹن: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹالینا جورجیئا نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کی مثال پچھلی کسی صدی میں نہیں ملتی اور اس بحران سے نکلنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائرس کی وبا دنیا کے 192 ممالک اور خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور مجموعی طور پر 15 لاکھ افراد کو متاثر کرچکی ہے جس کے باعث دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں غیرفعال ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا دنیا کی معشیت کے لیے بھی مضر!

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ 1930 کے گریٹ ڈپریشن (کساد عظیم) کے بعد دنیا میں مذکورہ معاشی بحران اپنی نوعیت کا پہلا بحران ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو خدشہ ہے کہ 2020 میں ’عالمی نمو تیزی سے تنزلی کا شکار ہوجائے گی‘ اور اس کے 170 رکن ممالک کو فی کس آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اگلے سال صرف ’جزوی بحالی‘ کی توقع ہے اور اس سال کے آخر میں وائرس کا خاتمہ متوقع ہے جس کے بعد کاروبار دوبارہ شروع ہوسکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن صورتحال اور بھی خراب ہوسکتی ہے، آؤٹ لک کے ارد گرد اور وبائی بیماری کے دورانیے سے متعلق زبردست غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف اپنا تازہ ترین عالمی معاشی آؤٹ لک منگل کو جاری کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 20 کھرب ڈالر تک نقصان کا خطرہ

خیال رہے کہ امریکا میں مارچ کے وسط سے اب تک ایک کروڑ 17 لاکھ ملازمتوں کا خاتمہ ہوا اور گزشتہ روز جاری کردہ تازہ ترین ہفتہ وار اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری سے متعلق فوائد کے لیے 66 لاکھ لوگوں نے درخواستیں دی ہیں۔

عالمی بینک نے کہا کہ وبائی بیماری افریقہ میں پہلی کساد بازاری کا سبب بنے گی۔

آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ ہمارے پاس قرض دینے کی گنجائش 10 کھرب ڈالر ہے اور ہنگامی مالی اعانت کے لیے 90 ممالک کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔

واضح رہے بیشتر ممالک پہلے ہی مجموعی طور پر 80 کھرب ڈالر کے لیے مشترکہ اقدامات کرچکے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی سربراہ نے حکومتوں سے مزید کام کرنے کی اپیل کی۔

مزیدپڑھیں: کورونا وائرس: ہمارے لیے جانی سے زیادہ مالی مسائل کا سبب؟

واضح رہے کہ امریکی سرمایہ کار ادارے اسٹینڈرز اینڈ پورز کے مطابق چین رواں سال کورونا وائرس پر قابو پاسکتا ہے، اگر ایسا ہوگیا تو چینی معیشت 2020 کے آخر تک دوبارہ سے مستحکم ہوجائے گی جبکہ 2021 میں ایک بار پھر بحالی کے سفر پر گامزن ہوسکتی ہے۔

وبائی بیماری سے صرف چین ہی نہیں بلکہ امریکا بھی متاثر ہوگا، امریکا سیاحت کے لیے آنے والوں میں 7 فیصد سیاح چینی ہیں، جو جہاز کے ٹکٹس، ہوٹلوں کے کرایوں، ریسٹورنٹس اور شاپنگ اخراجات کی صورت میں فی فرد اوسطاً 6 ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

امریکا چینی سیاحوں سے سالانہ تقریباً 5 ارب 80 کروڑ ڈالر تک کماتا ہے، اس وبائی مرض کی وجہ سے اس آمدنی میں کمی کا خدشہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں