پاکستان میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے درجنوں افراد کورونا سے متاثر

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2020
نشتر میڈیکل ہسپتال میں طبی عملے کے اراکین سمیت 28 ڈاکٹرز وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
نشتر میڈیکل ہسپتال میں طبی عملے کے اراکین سمیت 28 ڈاکٹرز وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: ملک بھر میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے درجنوں افراد خود کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹروں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے اس افسوسناک صورتحال کی وجہ ذاتی تحفظ کی اشیا (پی پی ایز) کے ناقص معیار کو قرار دیا۔

تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے طبی سہولیات فراہم کرنے والے عملے سے کہا کہ پی پی ایز کا غیر ضروری استعمال بند کردیں۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارے کا صحتیاب مریضوں کے ٹیسٹ دوبارہ مثبت آنے پر تحقیقات کا اعلان

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نشتر میڈیکل ہسپتال میں طبی عملے کے اراکین سمیت 28 ڈاکٹرز وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ کراچی میں بھی طبی عملے کے ارکان کی بڑی تعداد میں کووِڈ 19مثبت پایا گیا۔

رپورٹس کے مطابق مذکورہ طبی عملہ متاثرہ افراد سے رابطے کی وجہ سے وائرس کا شکار بنا کیوں کہ انہوں نے مناسب پی پی ایز نہیں پہنی ہوئی تھیں۔

پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر شاہد ملک نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ کچھ ڈاکٹرز وائرس کی وجہ سے انتقال کرچکے ہیں جبکہ دیگر پی پی ایز کی عدم دستیابی یا کم معیار ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔

مزید پڑھیں: این سی سی اجلاس میں لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی پر غور

ان کا کہنا تھا کہ ملتان کے صرف ایک ہسپتال میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے 28 افراد کے وائرس سے متاثر ہونے سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ طبی عملے کی ایک بڑی تعداد کو ٹیسٹ کیا جانا ابھی باقی ہے۔

ڈاکٹر شاہد ملک سے الزام عائد کیا کہ طبی اراکین کو کم معیار کے حفاظتی لباس اور ناقص پی پی ایز فراہم کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کا حجم 300 ملی میکرون ہے اور یہ سرجیکل ماسک سے بآسانی گزرسکتا ہے صرف این 95 ماسکس اس سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے لیکن حکومت اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ عملہ اور ڈاکٹز بھی سرجیکل ماسکس پہنیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترقی پذیر ممالک قرضوں میں چھوٹ کیلئے قدم اٹھائیں، وزیراعظم کی عالمی برادری سے اپیل

ایک بیان میں پی ایم اے کا کہنا تھا کہ ’ملک بھر میں طبی کارکنان کے تحفظ کو ترجیحی بنیاد پر یقینی بنایا جائے کیوں کہ وہ اور انِ کے اہل خانہ خطرات کی زد میں ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اب تک کئی ڈاکٹرز کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور اس کی تازہ مثال پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ای اینٹی پروفیسر ہیں جنہیں وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کے یونٹ منتقل کیا گیا اور اب وینٹیلیٹر پر اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘۔

پی ایم اے کے صدر نے مزید بتایا کہ فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں میں سے ہمارے 2 ڈاکٹر اسامہ ریاض اور عبدالقادر سومرو جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے سوگوار خاندانوں اور مرحوم ڈاکٹروں کے لیے کسی معاوضے کا اعلان تک نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں