اتحاد تنظیمات مدارس کے نمائندوں اور علمائے کرام نے کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسجدوں میں نمازیں بھی جاری رہنی چاہئیں۔

کراچی میں اتحاد تنظیمات المدارس کے اجلاس کے بعد رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی نے جے یوآئی سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ راشد محمود، مولانا اویس نورانی، مفتی ڈاکٹرعادل، مولانا محمد سلفی، ڈاکٹر اسرارو دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ کورونا وائرس پرمختلف لوگوں کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:وزیر اعظم کا ملک گیر لاک ڈاؤن میں 2ہفتے توسیع کا اعلان

اجلاس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں ٹیلی فون کے ذریعے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور سینیٹر ساجد میر کے علاوہ دیگر نے شرکت کی۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی جو افراد مدد کررہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔

کورونا وائرس حقیقت ہے، مفتی تقی عثمانی

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے احتیاطی تدابیراختیار کرنا ضروری ہے لیکن اس کےساتھ مساجد میں نمازیں بھی ہوتی رہیں تاہم صف بندی کے دوران آپس میں فاصلہ رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ نمازکی ادائیگی کے فوری بعد نمازی اپنے اپنے گھروں کولوٹ جائیں جبکہ بزرگ افراد مساجد میں آنے سے گریز کریں۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ کچھ لوگ کورونا وائرس کوحقیقت نہیں سمجھتے ہیں، یہ غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ وباسے متاثرہونے والوں کی مدد کرنے والی حکومت اور ادارے قابل تعریف ہیں تاہم احتیاتی تدابیرپرعمل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ سپرمارکیٹیں اور ضروریات زندگی کی اشیا کی مارکیٹیں کھلی ہیں ان کو بھی سماجی فاصلہ رکھنا کرنا چاہیے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اللہ سے رجوع ہی وبا سے نجات کا ذریعہ ہے، موجودہ حالات میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ اور پانچ وقت کی نماز بھی ضروری ہے لیکن جوافراد بیمارہیں وہ مسجد نہ آئیں۔

انہوں نے کہا کہ جمعے کے خطبے میں اردو تقریر نہ کی جائے ضروری ہوتو 5 منٹ سے زیادہ نہ ہو۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ علمائے کرام پرایف آئی آرز کا اندراج غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے ان کو ختم اور گرفتار علما کو رہا کیا جائے۔

مساجد کی انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسجدوں سے قالین ہٹاکر فرش پر نماز کااہتمام کیا جائے، سینیٹائزر کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ نمازی وضو اپنے گھروں سے کرکے آئیں اور اسی طرح سنتیں اور نوافل بھی گھر میں ہی پڑھی جائیں۔

مساجد میں سینیٹائزر کی دستیابی یقینی بنائیں، مفتی منیب الرحمٰن

اس موقع پر مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ اب لاک ڈاؤن کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا اور فاصلہ رکھنے کے طبی مشورے پر عمل کیا جائے گا، نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا اور عبادات کا سلسلہ جاری و ساری ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مساجد میں سینیٹائزر اور جراثیم کش اسپرے کو یقینی بنایا جائے گا۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں لاک ڈاؤن کریں اپنے زمینی حقائق بھی دیکھیں، کشمیر کے بھائی بھی اس وقت مظالم کا شکار ہیں اس پر ہندوستان کی مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں جو 9 مہینوں سے محصور ہیں، ہم ان عالمی اداروں کی مذمت کرتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو حقوق دلانے کے لیے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں:بزرگوں کی حفاظت کیلئے ان سے فاصلہ رکھیں، وزیراعلیٰ سندھ کی اپیل

چیئرمین رویت ہلاک کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ تین ماہ کے لیے مساجد اور دینی اداروں کے بل مکمل طور پر معاف کیے جائیں کیونکہ جو لوگ ان سے متعلق ہیں ان کے لیے بھی اسباب کرنے ہیں اور ریاست پورے ملک کے مسلمانوں کی مدد اور کفالت کرے۔

انہوں نے کہا کہ متعدد مساجد اور مدارس میں سینیٹائزر گیٹ لگ چکے ہیں اور لگ رہے ہیں اسی طرح مساجد میں احتیاطی تدابیر کو یقینی بنایاجائے گا لیکن ہم طویل عرصے تک لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

مذہبی اداروں میں جبر کا مظاہرہ نہ کیا جائے، مفتی منیب الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ اگر ضروری اداروں کو کھولنا ضروری ہے تو مدارس اور مساجد کو کھولنا ہماری دینی ضرورت ہے، دینی ضرورت سب سے مقدم ہے اور مقدم ہونی چاہیے۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ پولیس نے آئمہ کرام کے ساتھ زیادتی کی جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور اس وقت بھی ایک امام جیل میں ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کو فوری رہا کرے، امام کا کام نماز پڑھانا ہے اور نمازیوں کو روکنا انتظامیہ کا کام ہے تاہم احتیاطی تدابیر میں مسجد انتظامیہ تعاون کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کو بھی ادب سکھایا جائے کہ مذہبی اداروں میں جبر کا مظاہرہ نہ کیا جائے، ایک ایس ایچ او نے گالیاں بھی دیں۔

مفتی منیب الرحمٰن نے میڈیا سے شکوہ کیا ہے کہ مسئلہ فاصلہ رکھنا تھا جس کا معاشرے میں کئی مظاہر موجود ہیں لیکن 50 چینل بیٹھ کر مسجد، نماز اور جمعہ کو نشانہ بناتے ہیں اس لیے میڈیا کے نمائندوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کا رویہ دینی اداروں کے بارے میں اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے نفرت پھیلے گی۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا والے تمام معاملات کو یکساں دیکھیں آئندہ مساجد کو نشانہ بنانا ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں