کراچی: ہوائی فائرنگ سے خاتون جاں بحق، 4 پولیس اہلکار زیرحراست

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2020
دو تنظیموں کے رضا کاروں میں راشن کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا—فائل فوٹو: ڈان
دو تنظیموں کے رضا کاروں میں راشن کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا—فائل فوٹو: ڈان

کراچی میں پیر الٰہی بخش (پی آئی بی) کالونی پولیس نے راشن کی تقسیم کے دوران ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے کی گئی ہوائی فائرنگ سے ایک خاتون کے قتل کے الزام میں 4 پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔

پی آئی بی پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ منگل کی رات کو علاقے میں غریبوں میں راشن کی تقسیم کے دوران 2 تنظٰموں کے ورکرز کے دوران جھگڑے کے بعد پولیس کی ہوائی فائرنگ سے ایک خاتون کے جاں بحق ہونے پر ان پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔

اس حوالے سے علاقے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) شاکر حسین نے ڈان کو بتایا کہ 2 مقامی ویلفیئر آرگنائزیشن شاہ ویلفیئر اور نشتر بستی ویلفیئر نے مذکورہ علاقے نشتر بستی میں پولیس یا ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کیے بغیر راشن تقسیم کرنے کا انتظام کیا۔

تاہم ان کے مطابق عوام میں مبینہ طور پر راشن کی تقسیم کے دوران دونوں تنظیموں کے رضاکاروں کے درمیان جھگڑا ہوا، جس کے بعد اطلاع ملنے پر پولیس اہلکار جائے وقوع پر پہنچے تاکہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکا جائے۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت کو فراہم کردہ راشن بیگز میں غیر معیاری سامان کی موجودگی کا انکشاف

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ہجوم میں موجود کچھ افراد نے 4 پولیس اہلکاروں کو دھکا دیا جس پر انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی، اسی دوران ایک خاتون صبا نعمان جو اپنے کمرے کھڑکی میں کھڑی تھیں وہ زخمی ہوگئیں۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ خاتون کو سر میں ایک گولی لگی جس پر انہیں نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسیں، بعد ازاں قانونی کارروائی کے لیے ان کی لاش کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹرز کی رپورٹ اور گھر والوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ قتل کے الزام میں حراست میں لیے گئے چاروں پولیس اہلکاروں کو باضابطہ طور پر چارج شیت میں نامزد کریں۔

علاوہ ازیں ایس ایس پی شرقی تنویر عالم نے میڈیا کو بتایا کہ مرنے والی خاتون کے اہل خانہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ کیس میں قانونی کارروائی نہیں چاہتے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس ان پولیس اہلکاروں کے خلاف ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کرے گی کیونکہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔

تیسر ٹاؤن میں فائرنگ سے جماعت اسلامی کا کارکن قتل

قبل ازیں منگل کو پولیس اور جماعت اسلامی کے پارٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ تیسر ٹاؤن میں جماعت اسلامی کے دفتر پر مسلح افراد کے حملے میں ایک کارکن جاں بحق جبکہ 3 زخمی ہوگئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے سیکٹر 36 سی میں جماعت کے دفتر کے باہر اس وقت فائرنگ کی جب وہ کورونا وائرس سے لگنے والے لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والوں میں راشن تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔

علاوہ ازیں حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ پیر کی شام میں دو گروپس کے درمیان ہونے والے تصادم کا ردعمل ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیر کی شام میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور دوسرے گروپ کے لوگ ایک ہی علاقے میں الگ الگ راشن کی تقسیم میں مصروف تھے، تاہم صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب وہاں ہجوم جمع ہوا اور دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر بدنظمی کا الزام لگایا۔

اس حوالے سے سرجانی تھانے کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس کے کارکنان کے درمیان یہ بحث جھگڑے میں تبدیل ہوگئی اور ایک دوسرے پر پتھروں، ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ کیا گیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں پولیس کی مداخلت کے بعد صورتحال معمول پر آئی اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارکنوں کو منتشر کردیا۔

انہوں نے کہا کہ منگل کی رات کو دو موٹر سائیکل پر سوار متعدد افراد جماعت اسلامی کے دفتر کے باہر پہنچے اور ان میں سے 2 افراد نے بائیک سے اتر کر دفتر کے باہر کھڑے نوجوانوں پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے نتیجے میں 35 سالہ شخص جاوید احمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جبکہ دیگر 3 افراد زخمی ہوگئی جس میں متقول کا بڑا بھائی سلیم بھی شامل ہے، مزید یہ کہ دیگر زخمیوں میں 22 سالہ عظیم اور 18 سالہ عدنان شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے راشن کی تقسیم کیلئے ایک ارب 8 کروڑ روپے جاری کیے ہیں، سعید غنی

دریں اثنا امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے پارٹی کے کارکنان پر حملے پر مذمت کا اظہار کیا اور اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی انتظامیہ کی ناکامی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بحرانی صورتحال میں جو رضا کار دوسروں کی مدد کے لیے کام کر رہے ہیں بدقسمی سے انہیں ہی سیاسی وجوہات اور نفرت کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا، تاہم ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے میں جو بھی ملوث ہیں انہیں گرفتار اور سزا دی جانی چاہیے۔

خیال رہے کہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت لاک ڈاؤن جاری ہے اور مذکورہ لاک ڈاؤن سے یومیہ اجرت والے افراد اور غریب بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

18 مارچ سے پابندیوں اور 23 مارچ سے مکمل لاک ڈاؤن کے بعد سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور کافی تعداد میں لوگوں کے بیروزگار ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

ایسے ہی لوگوں کی مدد کے لیے سندھ حکومت کے علاوہ فلاحی ادارے راشن تقسیم کر رہے ہیں تاکہ ایسے نادار اور مستحق لوگوں کی مدد کی جاسکے۔

تاہم گزشتہ دنوں بھی ایک تنظیم کی جانب سے راشن کی تقسیم کے دوران عوام کا جم غفیر دیکھا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے ان کے لیے ہدایات جاری کی تھی۔

واضح رہے کہ سندھ میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1668 ہے جبکہ اموات 41 تک پہنچ چکی ہیں۔

سندھ میں سب سے زیادہ کیسز صوبائی دارالحکومت کراچی میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اموات بھی یہاں سب سے زیادہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں