دنیا بھر میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ میں کمی نہ ہونے کے باعث بہت لوگ پریشان ہیں اور انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے ایسی صورتحال کا اس سے قبل سوچا بھی نہیں تھا۔

ایسے ہی افراد میں شامی نژاد 32 سالہ ایوارڈ یافتہ فلم ساز حسن عقاد بھی ہیں جو اس وقت برطانیہ کے محکمہ صحت میں ایک کلینر کے طور پر کام کررہے ہیں۔

دی انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق 5 سال قبل برطانیہ پہنچنے والے حسن عقاد نے لوگوں سے اپیل بھی کی کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

حال ہی میں انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں کلینر کے طور پر کام کررہے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ ’شام چھوڑنے کے بعد سے لندن ہی میرا گھر ہے، میں کم سے کم اتنا ہی کرسکتا ہوں کہ اپنے پڑوس اور محکمہ صحت کے اسٹاف کا خیال رکھ سکوں‘۔

بعدازاں فلم ساز کی اس ٹوئٹ کو صارفین کا نہایت بہترین ردعمل موصول ہوا جس کے بعد انہیں گڈ مارننگ بریٹین شو پر مدعو بھی کیا گیا۔

اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے حسن عقاد نے لوگوں کو ایک ضروری پیغام بھی دیا۔

انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ’نرسز، وارڈ ہوسٹ، کلینرز اور پورٹرز کسی بھی ہسپتال کے لیے بہت ضروری ہیں اور ان کا تعلق کہیں سے بھی ہوسکتا ہے، پھر چاہے کوئی اسپین سے ہو، کوئی فلپائن سے، کوئی پولینڈ سے تو کوئی کیریبین سے‘۔

حسن عقاد کے مطابق ’مجھے اُمید ہے کہ اگر ہم اس صورتحال سے کچھ سیکھے تو یہ ضرور سیکھیں گے کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیے، چاہے ہمارا تعلق کہیں سے بھی ہو، مجھے اُمید ہے کہ سب کچھ بہتری کے لیے تبدیل ہوگا’۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

انہوں نے اس سنگین وقت میں ہسپتال میں کلینر کی ملازمت کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں ایسی خبریں سن رہا تھا کہ ہسپتالوں میں نرسز اور دیگر اسٹاف بھی کورونا سے متاثر ہورہے ہیں، جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہسپتالوں میں مدد فراہم کروں گا کیوں کہ اس وقت صفائی کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے‘۔

مزید پڑھیں: محبت کی طاقت سے کورونا کو شکست دینے والے معمر جوڑے کی وائرل تصویر

حسن عقاد نے این ایچ ایس کی رضاکارانہ اسکیم کا حصہ بننے کے بعد ہسپتال میں ملازمت شروع کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’برطانیہ میرے لیے اب میرا گھر ہے، میں اپنا ایک گھر شام میں کھو چکا ہوں لیکن اب دوسرا گھر نہیں کھونا چاہتا‘۔

حسن عقاد نے اس سے قبل کسی ہسپتال میں کام نہیں کیا، وہ دستاویزی فلم سازی کرنے اور برطانیہ میں بطور مہاجر منتقل ہونے سے قبل شام میں اساتذہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ شام میں کئی پرامن احتجاجوں کا حصہ بنے، تاہم اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دو بار حراست میں بھی لیا گیا جس کے بعد انہیں شام چھوڑنا پڑا۔

حسن عقاد کی ڈاکیومنٹری ایکسوڈس: آر جرنی تو یورپ کو ایمی اور بافتا جیسے کئی بڑے ایوارڈز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں