چیف جسٹس سے حفاظتی اقدامات کے فقدان کی تحقیقات کروانے کی درخواست

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2020
104 سے زائد ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ایک بڑی تعداد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکی ہے — فائل فوٹو: ڈان
104 سے زائد ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ایک بڑی تعداد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکی ہے — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے کیوں کہ پاکستان ینگز فارمسسٹ ایسوسی ایشن (پی وآئے پی اے) نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ طبی سہولیات فراہم کرنے والے عملے کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کی کمی پر مجرمانہ تفتیش کا حکم دیں۔

اس کے ساتھ ینگز ڈاکٹر ایسوسی ایشن اسلام آباد نے چیف جسٹس کی توجہ ذاتی تحفظ کی اشیا (پی پی ایز) یا غیر معیاری آلات کے استعمال کے باعث ڈاکٹروں کی حالت زار کی جانب بھی دلائی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ینگز فارمسسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے چیف جسٹس کو ارسال کردہ مراسلے میں ان سے درخواست کی گئی کہ کورونا وائرس سے لڑنے والے طبی عملے کے اراکین کو پی پی ایز اور صحت انشورنس فراہم کرنے اور جو اس وبا کے باعث ہلاک ہوجائیں ان کے اہلِخانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان: نشتر ہسپتال کے 18 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص

پاکستان ینگز فارمسسٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر فرقان ابراہیم کے لکھے گئے خط میں الزام عائد کیا گیا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا ’نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن‘ نامی این جی او چلا رہے ہیں۔

اس سے قبل 15 اپریل کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے معاونین اور مشیران کی تعیناتی کے خلاف درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔

ڈاکٹر فرقان ابراہیم نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس کو جمعرات کو مراسلہ ارسال کیا جس میں ذکر کیا گیا کہ کس طرح وزیراعظم عمران خان نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر سابق وزیر صحت عامت کیانی کو کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کر کے ڈاکٹر ظفر مرزا کو معاونِ خصوصی صحت مقرر کیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے پھیلنے پر ہسپتالوں کو حفاظتی کٹس کی فراہمی کی فکر

ڈاکٹر فرقان ابراہیم کے مطابق معاونِ خصوصی کے تقرر کے بعد وزیراعظم نے 3 روز میں ادویات کی قیمتوں میں کمی کا حکم دیا تھا لیکن وہ اج تک کم نہ ہوئے بلکہ ان میں اضافہ جاری ہے۔

مزید یہ کہ پاکستان کا نظامِ صحت پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) ایکٹ کو معطل کرنے اور پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس (پی ایم سی) 2019 نافذ کرنے سے بری طرح متاثر ہوا جسے بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ہزاروں نئے ڈاکٹرز پی ایم ڈی سی رجسٹریشن کے منتظر ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے فوراً بعد 2 کروڑ ماسکس اور حفاظتی آلات پاکستان سے باہر اسمگل کردیے گئے اور ملک میں ان اشیا کی قلت ہوگئی جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اس کی تحقیقات کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی طبی عملے کو حفاظتی اشیا فراہم کرنے کی ہدایت

مراسلے میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے وفاقی حکومت کے ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹروں کو سربراہ مقرر کردیا ہے جس سے نظامِ صحت اور سہولیات تقریباً تباہی سے دوچار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں کووِڈ 19 کی غیر معیاری ٹیسٹنگ کٹس اور حفاظتی اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ 104 سے زائد ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ایک بڑی تعداد کورونا وائرس سے جنگ کے دوران اس وبا سے متاثر ہوچکی ہے۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ حکام ایک نظام بھی تشکیل نہیں دے سکے کہ جس میں مشتبہ مریض کو کورونا کے لیے مختص وارڈ تک پہنچنے سے قبل ہسپتالوں کے احاطے میں آزادانہ پھرنے سے روکا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں