اگر آپ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو استعمال کرتے ہیں تو ایک یا 2 دن سے یقیناً لوگوں کی اس وقت کی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہوں گی جب ان کی عمر 20 سال تھی۔

ہیش ٹیگ می ایٹ 20 درحقیقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈائون کے باعث سماجی دوری اختیار کرنے والے افراد اس نئے سوشل میڈیا رجحان سے وقت گزاری کررہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر افراد کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ ٹرینڈ کیسے شروع ہوا اور یہ کسی معروف شخصیت کا نہیں بلکہ ایک عام امریکی خاتون کے سوال سے شروع ہوا۔

13 اپریل کو ٹوئٹر صارف @202natt نے ایک ٹوئٹ میں اپنے فالورز سے سوال کیا تھا کہ آپ سب 20 سال کی عمر میں کیسے نظر آتے تھے؟

اور اس کے بعد یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا شروع ہوگیا اور اب پاکستان میں بھی لاتعداد لوگ ایسا کررہے ہیں۔

چند ماہ پہلے بھی 10 ائیر چیلنج سوشل میڈیا پر مقبول ہوا تھا جس میں لوگ 2010 اور حالیہ تصاویر کو شیئر کررہے تھے۔

اب می ایٹ 20 چیلنج ٹرینڈ گردش کررہا ہے جس میں 20 سال کی عمر کی تصویر #MeAt20 کے ساتھ پبلش کردینی ہے اور ٹوئٹر پر ہی زیادہ تصاویر پوسٹ ہورہی ہیں تاہم انسٹاگرام پر بھی یہ رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔

سیاستدان، کھلاڑی، ٹی وی اینکرز اور متعدد افراد تصاویر پوسٹ کررہے ہیں۔

ویسے سوشل میڈیا سائٹس پر اس طرح کے چیلنجز اکثر سامنے آتے ہیں اور ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق ان کا مقصد اکثر کمپنیوں کی جانب سے اپنے الگورتھم کی تربیت کے لیے ڈیٹا کا حصول ہوتا ہے۔

گزشتہ سال wired.com میں شائع ایک مضمون میں بتایا گیا کہ چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا خیال تو ایسا ہے جس کے بارے میں سوچ کر ہی لوگوں کو اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوچنا ضرور چاہئے کہ کس حد تک ذاتی ڈیٹا آپ بغیر تحفظات کے شیئر کرسکتے ہیں۔

مضمون میں بتایا گیا کہ بیشتر افراد کا موقف ہے کہ یہ وہ تصاویر ہیں جو پہلے ہی ان کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس جیسے فیس بک پر دستیاب ہیں، یعنی کمپنی کو ان تک رسائی ہے، بس اب انہیں سال لکھ کر یعنی 2009 اور 2019 لکھ کر شیئر کیا جارہا ہے، تو اس میں کیا برائی ہے؟

تو اس کا جواب ہے کہ آپ تصور کریں کہ آپ چہرے شناخت کرنے والے الگورتھم کو عمر بڑھنے سے آنے والی تبدیلیوں کی تربیت دینا چاہتے ہیں یا سیکھانا چاہتے ہیں کہ عمر بڑھنے سے لوگ کیسے نظر آئیں گے؟ تو اس کے لیے مثالی حل تو یہ ہے کہ متعدد افراد کی تصاویر حاصل کی جائیں جس سے سسٹم کو یہ جاننے اور پیشگوئی کرنے میں مدد ملے گی کہ 10 سال کے عرصے میں لوگ کیسے نظر آئیں گے۔

مضمون میں مزید لکھا کہ فیس بک پروفائل تصاویر لوگ پوسٹ کرتے رہتے ہیں مگر لوگ کبھی انہیں ترتیب سے پوسٹ نہیں کرتے یعنی ہوسکتا ہے کہ جو تصویر ابھی لگی ہو وہ ماضی کی ہو، وہ گزشتہ سال، گزشتہ ہفتے یا ایک گھنٹے پرانی بھی ہوسکتی ہے، بلکہ یہ بھی غیرمعمولی نہیں کہ لوگ اپنی تصاویر کی جگہ کسی اور جیسے بچوں کی تصاویر پروفائل پکچر کے طور پر استعمال کریں۔

مگر اس ٹرینڈ سے الگورتھم کو واضح طور پر جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ تصویر ابھی اور ماضی کی ہے۔

آسان الفاظ میں اس ٹرینڈ سے لوگوں کی تصاویر کا بہت بڑا ڈیٹا جمع ہورہا ہے کہ وہ دس سال پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہیں۔

مضمون کے مطابق اگر یہ ڈیٹا کے حصول کا ذریعہ نہیں بھی ہے تو بھی لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی میں سوشل میڈیا گیمز اور تفریحی ٹرینڈز کو کس طرح ڈیٹا کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا جس کی ایک مثال کیمبرج اینالیٹکا اسکینڈل ہے۔

چہرے اور عمر کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ تو کمپنیوں کے لیے ٹارگٹڈ اشتہارات ہیں جو صارف کی عمر کے مطابق اشتہار دکھا سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں