رمضان المبارک میں وائرس پھیلا تو مساجد کو بند کرنا پڑے گا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2020
وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ تائیگر فورس کے رضاکاروں کو ان کی خدمات کے عوض کوئی رقم ادا نہیں کی جائے گی— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز
وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ تائیگر فورس کے رضاکاروں کو ان کی خدمات کے عوض کوئی رقم ادا نہیں کی جائے گی— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کو زبردستی مساجد میں جانے سے نہیں روک سکتے لیکن اگر رمضان المبارک میں کورونا وائرس پھیلا تو مساجد کو بند کرنا پڑے گا۔

کورونا وائرس کے حوالے سے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جن ممالک میں روزانہ دن میں پانچ، پانچ سو لوگ مر رہے ہیں اور امریکا میں روزانہ 2 ہزار سے زائد لوگ مر رہے ہیں وہاں اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ملک میں 9505 افراد متاثر، اموات 197 ہوگئیں

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف عوام کو کورونا سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور دوسری جانب اس لاک ڈاؤن کے معاشرے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اب ان ملکوں میں بھی بحث چل رہی ہے کہ لاک ڈاؤن میں کتنی نرمی کی جائے تاکہ لوگوں کو بھی کورونا سے بچایا جا سکے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جن ملکوں میں دن میں 500، 600 لوگ مر رہے ہیں، انہوں نے بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے، کئی چیزیں کھول دی ہیں، آسانیاں پیدا کی ہیں تاکہ لوگ باہر نکل سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے 192 لوگ فوت ہوچکے ہیں لیکن اس کا امریکا سے موازنہ کر لیں جہاں 40 ہزار لوگ کورونا کی وجہ سے مرچکے ہیں جبکہ اٹلی اسپین میں بھی 20، 20 ہزار لوگ مر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے شعبہ توانائی سے متعلق رپورٹ سامنے لانے کی منظوری دے دی

ان کا کہنا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ممالک لاک ڈاؤن میں نرمی کا سوچ رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لاک ڈاؤن غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتا کیونکہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ اس پر قابو پانے میں کتنا وقت لگے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ایک یا دو مہینے کے بعد کیا ہو گا اور یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر بالفرض آج یہ کیسز کم بھی ہو گئے تو ان کے ایک مہینے بعد دوبارہ بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے دنیا کی تمام اقوام لاک ڈاؤن کر کے عوام کو بچانے کے ساتھ ساتھ ملک چلانے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں۔

وزیر اعظم نے مساجد بند نہ کرنے کے فیصلے کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، جب پولیس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈنڈوں سے مار رہی تھی تو مجھے یہ دیکھ کر کافی تکلیف ہوئی۔

مزید پڑھیں: افغان قیدیوں کا تبادلہ، امریکی امن منصوبے کو کورونا وائرس سے خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں عبادات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، ہماری قوم مساجد میں جانا چاہتی ہے تو کیا ہم ان لوگوں کو زبردستی کہیں کہ آپ مساجد میں نہ جائیں اور کیا پولیس مساجد میں جانے والوں کو جیلوں میں ڈالے گی؟ ایک آزاد معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ لوگ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی جنگ پورا ملک لڑ رہا ہے، یہ امیر غریب یا طاقتور کمزور کسی کو بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضروری یہ ہے کہ لوگ خود اس جنگ میں شرکت کریں اور یہ تب ہی جیتی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے علما سے ملاقاتیں اور مشاورت کی، صدر مملکت عارف علوی نے علما کے ساتھ بیٹھ کر 20 نکات پر اتفاق کیا جن پر عمل کر کے ہی اب لوگ مساجد میں جا سکیں گے۔

وزیراعظم نے رمضان میں تمام پاکستانیوں سے گھروں میں بیٹھ کر عبادت کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے باقی مسلم ممالک میں بھی عوام کو گھروں میں عبادت کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے لیکن اگر مسجد میں جانا ہے تو طے شدہ شرائط پر پورا عمل کرنا ہو گا اور اگر رمضان میں وائرس پھیلتا ہے تو ہمیں ایکشن لیتے ہوئے مساجد کو بند کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان میں فیصلہ کیا کہ سیمنٹ انڈسٹری سے شروع کریں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آہستہ آہستہ مزید صنعتیں کھولیں اور تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد اس عمل کو توسیع دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کی وجہ سے امریکا کے لیے تمام امیگریشن معطل کردی جائے گی، ٹرمپ

عمران خان نے کہا کہ مغرب، یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کو معیشت کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ درپیش ہے اور ہمارا مسئلہ ہے کہ ہماری معیشت جس مشکل وقت میں پھنس گئی ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت اور بھوک سے بچانا ہے۔

انہوں نے مزید کہ اپنے ملک کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم مسلسل آپس میں مشاورت کررہے ہیں کہ کس طرح سے ہم اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ٹائیگر فورس میں شامل افراد رضاکارانہ بنیادوں پر کام کریں گے اور ان کو کسی بھی قسم کی تنخواہ یا رقم ادا نہیں کی جائے گی جبکہ یہ افراد غریب لوگوں تک پہنچ کر انہیں راشن وغیرہ فراہم کریں گے۔

بھارت میں مضحکہ خیز بیانیہ جنم لے رہا ہے، اسد عمر

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ ہم نے پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا تھا اور اس کےنتائج آنے کے بعد ہم نے تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے اس بارے میں مشاورت کی جس کے بعد ہم نے اس کی منظوری دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں جس میں بیمار افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی اور ان سے جن افراد کا رابطہ ہوا ہے ان کے بھی ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 21 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ہمیں اسے ہر ڈسٹرکٹ، ہر تحصیل اور ہر یونین کونسل تک لے کر جانا ہے جس کے لیے نظام تیار کیا جا چکا ہے۔

اس موقع پر انہوں نے پڑوسی ملک بھارت کے نام پیغام میں کہا کہ دنیا بھر میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہے اور تمام ممالک اپنے شہریوں کے لیے زندگیاں محفوظ اور آسان بنانے پر غور کر رہے ہیں لیکن اس ماحول میں وہاں ایک انتہائی مضحکہ خیز بیانیہ جنم لے چکا ہے کہ پاکستان آزاد جموں و کشمیر کے ذریعے کورونا کے مریض ہندوستان بھیج رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مودی صاحب نے وہاں ایک جگہ 10، 15ہزار لوگوں کو جمع کر کے جس طرح وبا کو پھیلایا اس کو ساری دنیا نے دیکھا لہٰذا پاکستان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور وزیر اعظم کی پہلی تقریر سے ہم خطے میں بھائی چارے کے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسد عمر نے بھارت سے درخواست کی کہ اپنے شہریوں کا خیال رکھیں، پہلے وہاں مسلمانوں پر الزام لگاتے رہے جس سے ایسا لگاکہ بھارت میں کورونا وائرس پھیلا ہی مسلمانوں کی وجہ سے ہے اور اب پاکستان پر الزام لگانے شروع کر دیے ہیں۔

وزیر اعظم کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے پر رضامند

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر فیصل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 25 اپریل کے بارے میں تخمینہ لگایا تھا کہ 12 سے 15ہزار کے درمیان کیسز ہو سکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ ہم اس کے قریب قریب پہنچ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہماری صورتحال بہتر ہے لیکن اس صورتحال کو ہمیں برقرار رکھنا ہو گا جس کے لیے ضروری کے تمام تر احتیاط پر لازمی عمل کیا جائے۔

ڈاکٹر فیصل نے اعلان کیا کہ چند دن قبل وزیر اعظم کی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جن کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تو بطور ذمے دار وزیر اعظم اور ذمے دار شہری ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے کورونا کا ٹیسٹ کرانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سارا ملک بیک وقت اکٹھا ہو کر وائرس کا مقابلہ کرے گا تو ہم اس پر بہتر طریقے سے قابو پا سکیں گے اور ہمیں اُمید ہے کہ شاید ہمارے اعدادوشمار وہاں نہ پہنچیں جن کا بہت سے دوسرے ملکوں کو سامنا ہے۔

احساس پروگرام سے 50لاکھ خاندانوں کی مدد کی جا چکی ہے، معاون خصوصی

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اب تک احساس پروگرام کے ذریعے 13 دنوں میں 50 لاکھ خاندانوں کی مدد کی جا چکی ہے جبکہ 7 ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت غریب و مستحق افراد میں نقد رقم کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مختلف کمپنیوں، مخیر حضرات وغیرہ کی مدد سے ان افراد تک راشن بھی پہنچا رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ احساس راشن پورٹل ایک آن لائن پورٹل ہے جس پر ناصرف ادارے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں بلکہ جن لوگوں کو راشن کی ضرورت ہے وہ بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

بے روزگار افراد کیلئے بڑا پیکج لانے کا اعلان

وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے بتایا کہ ہم اقتصادی رابطہ کمیٹی میں ایک بڑا پیکج لے کر جا رہے ہیں اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو بے روزگار ہوئے ہیں اور اب ان کا ذریعہ آمدن کوئی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پیکج سے لاکھوں لوگ مستفید ہو سکیں گے اور جیسے ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی اس کی منظوری دیتی ہے تو میڈیا پر اس حوالے سے آگاہی مہم شروع کریں گے کہ آپ کیسے اس پروگرام سے منسلک ہو کر امداد حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم بجلی کے ایک پیکج پر بھی کام کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں 90 فیصد کاروبار چھوٹے اور درمیانے طبقے کے لیے ہیں اور ہم ان سب کاروبار کو بجلی کے ذریعے فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔

حماد اظہر نے بتایا کہ ماہ اپریل کے اختتام سے قبل یہ پیکج لانچ کردیا جائے گا اور 90 فیصد سے زائد چھوٹے اور درمیان طبقے کے افراد کے کمرشل میٹر والوں کو مدد ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک اور پیکج لانے کی تیاری بھی کررہے ہیں جس کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو بینک سے مدد مل سکے گی کیونکہ عموماً ان افراد کے پاس زمین یا کوئی جائیداد نہ ہونے کے سبب بینک انہیں قرض دینے یا مدد کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والوں کو ہر حال میں قرنطینہ میں رہنا ہو گا، معید یوسف

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا کہ ہم نے طورخم اور چمن بارڈر کو کھول دیا ہے اور مخصوص تعداد میں پاکستانی، افغانستان سے واپس آنا شروع ہو گئے ہیں، ہفتے میں دو مرتبہ 500 پاکستانی طورخم اور تقریباً 300 چمن سے واپس آئیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی سرحد بند ہے، وہاں سے کچھ پاکستانی واپس آنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہماری وزارت خارجہ ان سے مستقل رابطے میں ہے تاکہ بقیہ افراد کو بھی واپس لایا جا سکے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی اجازت نہیں دے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک جانے والوں کے لیے کوئی ممانعت نہیں ہے، پی آئی اے بھی مستقل پروازیں چلا رہا ہے جبکہ متعدد ملکوں نے جہاز بھیج کر اپنے شہریوں کو واپس لے کر گئے تھے۔

معید یوسف نے بتایا کہ اس ہفتے 6 ہزار مسافر پاکستان آئیں گے اور اگلے ہفتے سے 7 ہزار مسافر آئیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ چاہے کوئی کتنا ہی اثرورسوخ والا کیوں نہ ہو لیکن بیرون ملک سے آنے والے تمام افراد کو دو دن قرنطینہ میں رکھنے کی پالیسی کا یکساں اطلاق ہو گا اور اس میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں