دبئی: بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت دیگر سینئر سیاسی رہنماؤں اور عوام کی جانب سے خلیجی ممالک پر شدید تنقید کی جاری ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں موقف اختیار کررہے ہیں۔

بھارت میں اسلاموفوبیا کے رجحانات نئی دہلی سے نکل کر یو اے ای میں فائز اعلیٰ عہدوں پر بھارتی باشندوں میں جڑ پکڑ گئے ہیں اور ان کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ اختیار کرنے کے بعد سابق بھارتی سفیر نویدیپ سوری کو صفائیاں دینی پڑ گئی ہیں۔

سابق سفیر نوید یپ سوری نے آن لائن پر بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا تنازعات کے دوران متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوششوں کو سراہا ہے۔

گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق سینئر سفارتکار نے متعدد ٹوئٹس میں کہا کہ ان کا عمل ’جاری تنازعات پر کچھ سیاق و سباق پیش کرنے کی ایک کوشش‘ ہے۔

مزیدپڑھیں: اب احساس ہونے لگا ہے کہ’مسلمان‘ ہوکر بھارت میں نہیں رہ سکتا، نصیرالدین شاہ

انہوں نے کہا کہ ’یواے ای بہترین انداز میں مذہبی رواداری کو فروغ دے رہا ہے اور 2019 کو رواداری کے سال کے طور پر بھی منایا گیا۔

سابق بھارتی سفیر نے کہا کہ کہ ابوظہبی میں ایک مندر کی اجازت دینے کے علاوہ ایک ہی کمپاؤنڈ میں چرچ اور مسجد بھی تعمیر کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یو اے ای میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف سخت قوانین ہیں اور یہ بات تمام مذاہب کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر لاگو ہوتی ہے۔

سابق بھارتی سفیر نویدیپ سوری نے کہا کہ ’بھارت کی جانب سے مذہب سے متعلق نفرت آمیز تقاریر ایک الگ مسئلہ ہے، یہ بھارت اور یواے ای کی دوستی سے ناخوش لوگوں کے لیے ایک چارہ ہے‘۔

مزیدپڑھیں: ’ہر تبلیغی کورونا کا مریض نہیں اور ہر مسلمان تبلیغی نہیں، بھارتی حکومت رویہ بدلے‘

انہوں نے کہا کہ ’یو اے ای تیسرا سب سے بڑا اسٹریٹجک و تجارتی شراکت دار ہے جہاں سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوتی ہے، شعبہ توانائی میں بھی شراکت دار ہے۔

نویدیپ سوری نے مزید کہا کہ 34 لاکھ بھارتی یو اے ای میں ملازمت پیشہ ہیں جو 17 ارب ڈالر زرمبادلہ ارسال کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’دو طرفہ تعلقات مضبوط ہیں اور برقرار رہیں گے لیکن غیرضروری تنازعات سے کوئی مدد نہیں ملے گی‘۔

علاوہ ازیں سابق بھارتی سفیر نویدیپ سوری نے اپنے ٹوئٹ میں یواے ای میں بھارتی باشندوں کو احتیاطی رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا جن میں سے بعض توہین آمیز سوشل میڈیا پوسٹوں یا وائٹس ایپ پیغامات کی وجہ سے ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا انہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019: بھارت میں اقلیتوں کیلئے خوف و تشدد کی علامت کا ایک اور برس

حالیہ دنوں میں بھارت مسلمانوں کو کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ قرار دینے پر متعدد بھارتی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

18 اپریل کو شارجہ میں مقیم کیریٹلائٹ کے مشہور تاجر اور فلمساز سوہن رائے کو ایک ایسی ویڈیو شیئر کرنے پر معذرت کرنا پڑی جس میں مذہبی تعصب کی عکاسی تھی۔

اسی طرح رواں ماہ کے شروع میں ٹیکنیشن راکیش بی کٹورماتھ ، چیف اکاؤنٹنٹ بالا کرشنا نکا اور فنانس تجزیہ کار متیش اڈیشی کو توہین آمیز سوشل میڈیا پوسٹوں پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں فیوچر ویژن ایونٹس کے سی ای او سمیر بھنڈاری کے خلاف بھی پولیس میں شکایت درج کرائی گئی کہ انہوں نے ایک بھارتی مسلمان کو موبائل پر پیغام بھیجا کہ وہ ملازمت کی تلاش کے لیے ’واپس پاکستان‘ جائے۔

مزیدپڑھیں: بھارتی رکن پارلیمان کے مسلمانوں کیخلاف متعصبانہ بیان پر عمران خان کی تنقید

علاوہ ازیں پچھلے مہینے دبئی میں مقیم شیف تریلوک سنگھ کو دہلی میں مقیم قانون کی طالبہ سواتی کھنہ کے خلاف آن لائن عصمت دری کی دھمکی پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

طالبہ نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی تھی۔

بھارت میں اسلاموفوبیا کے خلاف خلیج ممالک میں تنقید

بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی اصل وجہ تبلیغی جماعت کے شرکا کو قرار دیا جارہا ہے جس کے بعد بھارت کے متعدد شہروں اور دیہات میں دکانداروں نے مسلمانوں کو سودا سلف دینے سے انکار کردیا۔

اس صورتحال کے پیش نظر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کہنا پڑا کہ وائرس حملہ کرتے وقت نسل، مذہب، رنگ، ذات پات کو نہیں دیکھتا۔

لیکن چند ہفتوں میں یو اے ای میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھارتی انتہا پسند شخصیات نے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ اختیار کیا۔

جس پر متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند القسیمی نے ایک بھارتی انتہا پسند سینئر عہدیدار کے جواب میں کہا کہ ’حکمران شاہی خاندان بھارت سے قریب تعلقات رکھتے ہیں لیکن یہ رویہ ناقابل قبول ہے، یہاں (یو اے ای) میں سب کو ان کے کام کے بدلے معاوضہ ملتا ہے۔ کوئی مفت میں کام نہیں کرتا‘۔

علاوہ ازیں کویت کے معروف کارکن عبدالرحمن النصار نے اپنے ردعمل میں ٹوئٹ کیا کہ خلیج ممالک میں بھارتی انتہا پسندوں پر نظریں رکھی جائیں گے، اگر آپ کو بھارت میں اقلیتوں کے خلاف کوئی انتہاپسندانہ تحریر ملے تو نجی اکاونٹ پر اس کو شیئر کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں