نئے نوول کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے ایک متنازع حکمت عملی، جسے برطانیہ نے مسترد کردیا تھا، اب اسے غریب مگر زیادہ نوجوان آبادی پر مشتمل ممالک جیسے بھارت کے لیے بہترین حل قرار دیا جارہا ہے۔

درحقیقت اس حکمت عملی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی ملک کی آبادی کے بڑے حصے میں وائرس کے خلاف مزاحمت یا ہرڈ امیونٹی انہیں بیماری سے متاثر اور صحتیاب کرکے پیدا کی جائے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے وبائی امراض کے ایک ماہر جیا پرکاش مولیالی کا کہنا تھا 'کوئی بھی ملک طویل عرصے تک لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا، کم از کم بھارت جیسا ملک، آپ ممکنہ طور پر ایک ایسے موڑ پر پہنچ جائیں گے جہاں لوگوں میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت بزرگوں کو متاثر کیے بغیر پیدا کی جاسکے گی، جب یہ مزاحمت آبادی کے بڑے حصے میں پیدا ہوجائے گی تو معمر افراد بھی اس سے محفوظ ہوجائیں گے'۔

پرنسٹن یونیورسٹی اور سینٹر فار ڈیزیز ڈائنامکس، اکنامکس اینڈ پالیسی کے ماہرین کی ایک ٹیم کے مطابق بھارت ایسا ملک ہے جہاں یہ حکمت عملی کامیاب ہوسکتی ہے کیونکہ آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے ہسپتال میں داخلے اور اموات کا خطرہ کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کنٹرول انداز سے اگلے 7 ماہ کے دوران وائرس کو پھیلنے کا موقع دینے سے نومبر تک 60 فیصد آبادی میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت پیدا کی جاسکتی ہے، جس سے وبا کی روک تھام بھی ہوجائے گی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس طریقہ کار سے اموات بھی یورپی اقوام جیسے اٹلی کے مقابلے میں کم ہوں گی کیونکہ 93 فیصد سے زائد بھارتی آبادی کی عمر 65 سال سے کم ہے، تاہم انہوں نے اموات کا تخمینہ نہیں دیا۔

اس حکمت عملی میں ترقی پذیر ممالک جیسے بھارت، انڈونیشیا اور افریقی ممالک میں چند چیلنجز کا ذکر کیا گیا ہے جو اس وبا کی روک تھام کے لیے لاک ڈائون کو اپنانے سے پیدا ہورہے ہہیں۔

ان کے بقول بھارت کے متعدد شہروں اور قصبوں میں بہت زیادہ آبادی کے باعث سماجی دوری ناممکن ہے، ٹیسٹنگ کٹس کی کمی اور لاک ڈائون سے عوامی مشکلات کے پیش نظر ایسے ممالک میں مختلف حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے۔

تحقیقی ٹیم نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت کے سخت لاک ڈائون کو ختم کردیا جائے جسے 3 مئی تک توسیع دی جاچکی ہے اور 60 سال سے کم عمر بیشتر افراد کو معمول کی زندگی پر لوٹنے دیا جائے، جس دوران سماجی دوری کی حوصلہ افزائی کی جائے، فیس ماسکس کا استعمال ہو اور بڑے اجتماعات پر پابندی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو معمول کی زندگی پر لوٹنے کا موقع دینے کے بعد جس حد تک ممکن ہو لوگوں کے ٹیسٹ کیے جائیں، جبکہ مصدقہ اور مشتبہ کیسز کو آئسولیشن میں رکھا جائے۔

اس حکمت عملی کے تحت 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو اس وقت تک لاک ڈائون میں رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے جب تک آبادی کے بڑے حصے میں وائرس کے خلاف مزاحت پیدا نہیں ہوجاتی، جبکہ زیادہ عمر کے افراد کو بیمار ہونے پر ٹیسٹنگ اور علاج میں ترجیح دی جائے۔

بھارتی حکومت نے فی الحال ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ اس طرح کی حکمت عملی کو اپنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بھارت میں ابھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ ان افراد کے لیے کیے جاتے ہیں جو بہت زیادہ بیمار ہوں یا زیادہ خطرے کی زد میں ہوں اور ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ بیماری سرکاری اعدادوشمار سے زیادہ لوگوں تک پھیل چکی ہے۔

نئی دہلی کے پیپلز ہیلتھ موومنٹ نامی گروپ کے کوآرڈنیٹر ٹی سندرارامان کے مطابق 'یہ کسی حد تک قابل فہم ہے، جب یہ کہا جائے کہ لوگوں کو بیمار اور صحت مند ہونے دیا جائے جبکہ ان لوگوں کا خیال رکھا جائے جو بیمار ہوں'۔

21 اپریل تک بھارت میں 20 ہزار سے زائد کیسز اور 645 اموات کی تصدیق ہوچکی تھی اور حکومت کے بقول بیماری ابھی برادری کی سطح پر پھیلنا شروع نہیں ہوئی، تاہم ٹیسٹنگ کی شرح بڑھنے سے روزانہ نئے کیسز کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

بھارت میں لاک ڈائون کے اثرات اب واضح ہورہے ہیں اور ریاستی حکومتوں کے کیمپس میں 12 لاکھ سے زائد ایسے لوگ موجود ہیں جو روزگار سے محروم ہونے پر شہروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جبکہ فوڈ کیمپس میں 75 لاکھ دیہاڑی دار افراد کو غذا دی جارہی ہے، جبکہ ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ سخت اقدامات سے آبادی کے بڑے طبقے کی حالت خراب ہوچکی ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی کے محقق رامانن لکشمن آریان کے مطابق ؛ہمیں بھوک، فاقہ کشی اور ایسے ہی دیگر عناصر کا سامنا ہے، بلاشبہ اس حکمت عملی سے اموات ہوں گی، مگر وہ اس سے کم ہوں گی جو موجودہ طریقہ کار سے ہوسکتی ہیں، جبکہ کاروبار نومبر تک کھل جائے گا'۔

مگر یہ حکمت عملی بین الاقوامی سطح پر پہلے ہی متنازع تصور کی جارہی ہے، برطانیہ نے پہلے اسے اپنایا اور وبا کے آغاز میں اس وقت ترک کردیا جب یہ تخمینہ سامنے آیا کہ اس سے طبی نظام پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ جائے گا۔

کچھ عرصے کے لیے اپنائی جانے والی اس حکمت عملی کو اب برطانیہ میں وائرس کے خلاف سست ردعمل کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔

پرخطر حکمت عملی

بھارت جیسے ملک میں جہاں کی زیادہ تر آبادی 65 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، وہاں بھی اس پر عملدرآمد خطرے سے خالی نہیں۔

لوگوں کو بیمار ہونے دینے سے زیادہ تر افراد ہسپتالوں کا رخ کریں گے اور محققین کے مطابق اس سے نمٹنے کے لیے بھارت کو فوری طور پر انتہائی نگہداشت اور آئسولیشن بیڈ گنجائش کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ تعداد میں مریض وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے سے قبل ہلاک نہ ہوجائیں۔

ایک اور خطرہ بھارت میں فضائی آلودگی کی بدترین شرح، بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریضوں کی بہت زیادہ تعداد ہونا ہے، جس سے وائرس کے نتیجے میں توقعات سے زیادہ ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔

بھارت میں کم عمر افراد میں بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے امراض عام ہیں اور اس حکمت عملی سے خدشہ ہے کہ وہ اپنے تحفظ کا خیال چھوڑ کر سماجی دوری کی ہدایات پر عمل نہیں کرسکیں گے۔

نئے نوول کورونا وائرس کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں اور اس وائرس کے خلاف جسم کے اندر مزاحمت کا معاملہ توقع سے زیادہ پیچیدہ ہے۔

درحقیقت سائنسدانوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اس وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے سے قبل 82 فیصد تک آبادی اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر مارک لپسٹیک کا کہنا ہے کہ اہم سوال یہ ہے کہ آبادی میں کتنی مدافعت درکار ہوگی اور ہر متاثرہ فرد میں اس سے کتنی مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

مگر حکمت عملی کا مشورہ دینے والے محققین زور دیتے ہیں کہ یہ طریقہ کار متعدد برے آپشنز میں بہترین ہے۔

رامانن لکشمن آریان کے مطابق 'میرے خیال میں بتدریج تمام ممالک ہی بھارتی ماڈل پر عمل کریں گے، کیونکہ دوسری صورت میں ہمیں لاک ڈائون کی جانب جانا ہوگا اور سب کچھ اگلے سال جون تک بند کرنا ہوگا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں