مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو معاہدہ ختم کردیں گے، فلسطینی صدر

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2020
فلسطینی صدر نے کہا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے— فائل فوٹو:
فلسطینی صدر نے کہا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے— فائل فوٹو:

فلسطین کے صدر محمود عباس نے دھمکی دی ہے کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے فلسطینی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

واضح رہے کہ فلسطینی صدر اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر خبردار کر چکے ہیں کہ اگر انہوں نے نام نہاد 'صدی کے معاہدے' سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو فلسطینی حکام موجودہ معاہدے کو منسوخ کر سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے حل کے لیے جنوری میں اپنی طرز کا ایک منصوبہ لے کر آئے تھے جس میں متعدد متنازع شقوں پر فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس مجوزہ منصوبے میں اسرائیلی عوام کے دہائیوں پرانے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطین کو محدود اختیارات کے ساتھ اقتدار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امن منصوبے سے انکار پر اسرائیل فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرے، امریکی عہدیدار

تاہم سب سے زیادہ متنازع بات یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں اور وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی اجازت دینا تھا۔

فلسطینی گروپوں نے ان امریکا اور اسرائیل کے اس مشترکہ منصوبے کو متقفہ طور پر مسترد کردیا تھا اور اسے اپنے حقوق پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی قبضے کے خلاف متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔

فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیرقانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

تاہم فلسطینی حکام کے تمام تر اعتراضات اور احتجاج کے باوجود امریکی صدر نے 6 دسمبر 2017 کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

فلسطین نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا جس کی حمایت عالمی سطح پر دیگر ممالک نے بھی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں