عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم نے خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کے خلاف موثر مداخلت نہیں کی گئی تو پاکستان میں جولائی کے وسط تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔

پاکستان نیشنل اسٹریٹجک تیاری اور رسپانس پلان ورچوئل کانفرنس کے آغاز پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ کووڈ 19 رسپانس پلان پاکستانی حکومت، اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی مشترکہ حکمت عملی پر منحصر ہے۔

مزید پڑھیں: نئے نوول کورونا وائرس کے 50 فیصد مریض اس سے بے خبر رہتے ہیں

ٹیڈروس ادہانوم نے بتایا کہ یہ اقوام متحدہ، پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان اور ڈبلیو ایچ او کے عالمی اسٹریٹجک تیاری اور رسپانس پلان کے ساتھ منسلک ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کے 115 اضلاع میں وائرس پھیل چکا ہے اور سندھ اور پنجاب اس سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے سے دباؤ کے حامل شعبہ طب اضافی دباؤ برداشت کر رہا ہے اور متاثرہ افراد کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس سے سماجی و اقتصادی شعبے پر پڑنے والے اثرات کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ رواں برس کے آغاز میں وائرس کے بارے میں بہت کم معلومات تھی لیکن اب یہ عالمی سطح پر پھیل چکا ہے، طبی نظام اور معیشت سمیت زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں۔

ٹیڈروس ادہانوم نے کہا کہ تیزی سے پھیلتی وبا کے تناظر میں پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ، لچکدار اور بروقت مالی اعانت کی ضرورت ہے تاکہ وبا کو محدود کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ منصوبے میں حکومت کی پوری حکمت عملی وسائل کی عکاسی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ میں اقوام متحدہ سمیت دیگر مقامی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے لیے چند گزارشات پیش کروں گا کہ پاکستان کے لیے وائرس ایک حقیقی خطرہ ہے اور اس خطرے کو کم کرنے کا تعلق مربوط اور ٹھوس نقطہ نظر پر منحصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے بلکہ وسائل کو بڑھانے کے لیے بھی ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی تاکہ جہاں کہیں بھی ضرورت ہو ایسے بروقت استعمال کیا جا سکے۔

آخر میں انہوں نے رمضان کریم کی آمد پر پاکستان میں مسلمانوں سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور مبارک باد پیش کی۔

’موثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے‘

سربراہ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اگر وائرس کے خلاف موثر مداخلت نہیں کی گئی تو پاکستان میں جولائی کے وسط تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹرجنرل ٹیڈروس ادہانوم نے ٹوئٹ میں کہا کہ موثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ڈبلیو ایچ او کا فنڈ روکنا قابل مذمت، کورونا کے خلاف کوششوں کو دھچکا ہے، چین اور روس

انہوں نے کہا کہ وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کے پیش نظر معیشت پر اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔

ٹیڈروس نے واضح کیا کہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دگنی ہوسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے اس امر پر زور دیا کہ وائرس کے خلاف جنگ میں یکجہتی، مربوط روابط اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے واضح کیا گیا کہ موثر حکمت عملی کے لیے 59 کروڑ 50 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مذکور پلان کے تحت کمزور پڑجانے والے روابط کو مضبوط کرنا، بیماریوں کی تفتیش و تحقیق کی لیبارٹریوں کی مدد کرنا، کیس مینجمنٹ کو بہتر بنانا اور انفیکشن کی روک تھام اور کنٹرول سے متعلق امور کو موثر بنانا شامل ہیں۔

’وائرس طویل عرصے تک موجود رہے گا‘

علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ وائرس طویل عرصے تک موجود رہے گا۔

ٹیڈروس ادہانوم نے افریقا، مشرقی یورپ، وسطی امریکا اور جنوبی امریکا میں وائرس کے کیسز میں اضافے پر بھی خبردار کیا۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن ختم کرنا یا اس میں نرمی لانے سے وائرس ایک مرتبہ پھر ’جنم‘ لے گا۔

سربراہ ڈبلیو ایچ او نے استعفیٰ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وہ لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے دن رات کام کرتے رہیں گے اور ڈبلیو ایچ او وبا سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کررہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بحال نہیں کی جاسکتی، امریکا

دوسری جانب امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن کبھی بھی ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ کو بحال نہیں کرے گا۔

مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے وبائی مرض سے نمٹنے کے بعد عالمی ادارہ صحت کی بنیادی اصلاح کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دیے

مائیک پومپیو نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کا سب سے بڑا ڈونر امریکا ہے جو کبھی بھی اقوام متحدہ کی مالی اعانت بحال نہیں کرے گا۔

انہوں نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ہمیں ڈبلیو ایچ او پر ایک سخت نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسَس نے زور دیا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کو عالمی وبا کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی معلومات تھیں اس سے متعلق امریکا سے کچھ نہیں چھپایا۔

انہوں نے کہا کہ جنیوا میں عالمی ادارہ صحت میں امریکی حکومت کے کام کی موجودگی کا مطلب ہے کہ پہلے دن سے امریکا سے کچھ نہیں چھپا ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: فنڈنگ روکنے کے امریکی فیصلے پر 'افسوس' ہے، عالمی ادارہ صحت

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او پر کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے فنڈ روکنے کا اعلان کیا تھا جس پر ماہرین صحت نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ٹرمپ نے ررواں ہفتے منگل کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے حوالے سے چین کی غلط معلومات کو فروغ دیا جس کی وجہ سے یہ کئی گنا بڑے پیمانے پر پھیل گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے سلسلے میں شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور میں اپنی انتظامیہ کو فنڈز روکنے کی ہدایت کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ اور سنگین بدانتظامی میں عالمی ادارہ صحت کے کردار کا جائزہ لیا جائے گا اور اب ہم بات کریں گے کہ جو رقم عالمی ادارہ صحت کو جاتی تھی اس کا کس طرح استعمال کیا جائے گا۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او کو فنڈنگ روکنے کے فیصلے کو چین اور روس نے کورونا وائرس کے خلاف عالمی کوششوں کو دھچکا قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں