تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو بڑا دھچکا

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2020
کورونا وائرس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل پر انحصار کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں معاشی بحران پیدا ہوگیا — فائل فوٹو:رائٹرز
کورونا وائرس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل پر انحصار کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں معاشی بحران پیدا ہوگیا — فائل فوٹو:رائٹرز

عراق نے لاکھوں سرکاری ملازمین کے لیے سماجی فوائد کو کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اس کے ساتھ ہی سعودی عرب میں بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہونے کا امکان ہے جبکہ مصر اور لبنان کے خلیج میں کام کرنے والے ورکرز کی جانب سے کم ڈالرز بھیجے جانے کی وجہ سے دونوں ممالک کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس وبا کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل پر انحصار کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق تمام خلیجی عرب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشتیں رواں سال سکڑ جائیں گی جبکہ عراق میں اس کا اندازہ 5 فیصد تک لگایا گیا ہے۔

جہاں چند خلیجی ممالک غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر انحصار کرنے کے قابل ہیں وہیں عراق جیسی صورتحال کہیں نہیں دیکھی جاسکتی جہاں تیل کی فروخت ہی سے ریاست کے 90 فیصد بجٹ کو فنڈنگ ہوتی ہے۔

عراق میں گزشتہ مہینوں میں کمزور معیشت اور کرپشن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے تھے اور یہ صورتحال دوبارہ سامنے آسکتی ہے۔

اخراجات میں کمی سے پہلے سے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں سے مشکلات کا سامنا کرنے والی عوام ک پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

عراقی دارالحکومت کے تحریر چوک پر مظاہرین اب بھی موجود ہیں جو اپنی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

عراقی تجزیہ کار سجاد جیاد کا کہنا تھا کہ ’موسم سرما میں داخل ہوتے ہی حکومت کے لیے بڑے طوفان کی صورتحال پیدا ہورہی ہے‘۔

تیل کی قیمت عالمی منڈی میں اس وقت 20 ڈالر فی بیرل ہے جو کبھی کبھی مزید کم بھی ہوجاتی ہے۔

اوپیک کے تیل کی مارکیٹ کو مستحکم بنانے کے لیے 23 فیصد تک پیداوار کو کم کرنے کے معاہدے تک مارکیٹ کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مئی اور جون کا مہینہ سب سے زیادہ مشکل ہوگا جب تیل کو ذخیرہ کرنے کی سہولت میسر نہیں ہوگی اور ممالک تیل کو مارکیٹ میں پیش کرنے کے لیے مشکلات سے دوچار ہوں گے۔

دبئی کے قمر اینرجی کے سی ای او رابن ملز کا کہنا تھا کہ ’فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اب تک کسی کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کہ ان کا بجٹ ختم ہوگیا ہو مگر ایسا نہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا، ممکن ہے کہ اس کا سب سے پہلا شکار عراق ہو‘۔

عراق کے 2020 کے بجٹ کے ڈرافٹ میں 56 ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل کی قیمت پر ریونیو پر انحصار کیا گیا تھا تاکہ نہایت ضروری ترقیاتی منصوبوں کو فنڈنگ کی جاسکے۔

عراقی وزیر تیل ثامر عباس غضبان کا کہنا تھا کہ خام تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والا ریونیو 50 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔

اب حکام تنخواہوں میں کمی پر بحث کر رہے ہیں۔

تین عراقی حکام کے مطابق ایک پیشکش یہ بھی ہے کہ عوامی شعبے کے ورکرز کو ان سماجی فوائد کے لیے مالی حالات بہتر ہونے تک ادائیگیاں روک دی جائیں۔

حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کتنا کم کیا جائے اور کس سے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد کی 50 فیصد تنخواہ کاٹ لی جائے۔

اس سے عراق کو لاکھوں ڈالرز بچ سکیں گے تاہم صورتحال کشیدہ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوجائے گا۔

اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمت 20 سے 30 ڈالر فی بیرل رہی تو یہ کافی نہیں ہوگا۔

خطے کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب نے بھی 5 فیصد یا 13.3 ارب ڈالر تک کے اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

سعودی عرب کے 500 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر میں سے مزید کمی یا اقدامات کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

وبا کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور کاروبار کو نقصان سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نئے شہروں اور میگا منصوبوں کی تعمیر ممکنہ طور پر تاخیر کا شکار ہوں گے۔

کویت میں بھی بہت زیادہ ذخائر موجود ہیں تاہم بحرین کو اس کے جی ڈی پی کے 105فیصد سے زائد قرضوں کا سامنا ہے جبکہ انہیں 2018 میں ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے اپنے پڑوسیوں سے 10 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج بھی موصول ہوچکا ہے۔

دیگر بڑے تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک میں نوکریوں میں کمی اور معاشی جھٹکوں کا سامنا رہے گا۔

امریکی تیل پیدا اور سروسز کمپنی نے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے فارغ کیا اور وبا اگر یونہی جاری رہی تو مزید بڑے پیمانے پر برطرفیاں سامنے آئیں گی۔

وبا اور تیل کی قیمتوں میں کمی کا ایک اور جھٹکا مصر، اردن اور لبنان پر بھی پڑے گا جو تیل سے مالا مال عرب خلیجی ممالک میں ورکرز کے غیر ملکی کرنسی اپنے ملک بھیجنے پر انحصار کرتی ہیں۔

لبنان میں بیرون ملک سے بھیجے جانے والی رقم جی ڈی پی کا 12.5 فیصد تھی جبکہ مصر میں یہ شرح 10فیصد تھی۔

لبنان کے ایک رہائشی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اب کیسے گزارا کریں گے، بھوک ہمارے دروازے تک پہنچ چکی ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں