حفاظتی کٹس کی کمی، 'صحت ورکرز وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن رہے ہیں'

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2020
صوبے میں 50 سے زائد ڈاکٹروں اور دیگر صحت ورکرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
صوبے میں 50 سے زائد ڈاکٹروں اور دیگر صحت ورکرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

پشاور: صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہیلتھ ورکرز حفاظتی کٹس کی کمی کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہے ہیں کیونکہ وہ بغیر علامات والے مریضوں کا سامنا کرنے کے بعد متاثر ہوجاتے ہیں اور انجانے میں پورے ہسپتال میں گھومتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر زبیر محسود نے ڈان کو بتایا کہ ‘صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے اب کورونا وائرس کا ذریعہ بن رہے ہیں کیونکہ وہ ہسپتالوں میں گھوم رہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے جس مریض کا معائنہ کیا ہے وہ اس سے متاثر ہے یا نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ صرف کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال میں خصوصی طور پر شامل صحت ورکرز کو پی پی ایز فراہم کرنے کی حکومتی پالیسی ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس کو انفیکشن کا باعث بنا رہی ہے جو بغیر علامات کے ساتھ مریضوں کے رابطے میں آئے تھے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: خیبرپختونخوا میں اموات کی شرح سب سے زیادہ

ڈاکٹر زبیر محسود کا کہنا تھا کہ وبائی امراض کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عالمی سطح پر مانگ کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں پی پی ایز کی کمی کی وجہ سے حکومت کورونا وائرس کے آئی سولیشن اور انتہائی نگہداشت یونٹوں میں کام کرنے والے عملے کی حفاظت کر رہی ہے لیکن عام او پی ڈیز اور وارڈز میں میں موجود صحت ورکرز میں انفیکشن پھیل رہا ہے کیونکہ علاج کے لیے ہسپتالوں میں آنے والی دیگر بیماریوں کے مریضوں سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار موجود نہیں جبکہ ان میں سے کئی لوگ کورونا سے متاثر مگر بغیر علامات کے ہوتے ہیں۔

پی ڈی اے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا ہسپتالوں کے باہر علیحدہ سہولت میں معائنہ کیا جانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ کوڈ 19 کے مریضوں میں علامات 14 دن کے اندر نمودار ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بغیر علامات والے مریضوں نے او پی ڈیز میں داخل ہوکر صحت ورکرز کو بیماری منتقل کی جو بعد میں ہسپتالوں، ہاسٹلوں اور ان کے گھروں میں انفیکشن کا ذریعہ بن گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین: کووڈ 19 کی سینسر شدہ کہانیاں محفوظ کرنیوالے 3 رضاکار لاپتہ

صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس وارڈ اور آئی سی یو میں کام کرنے والے تمام عملے کو الگ الگ رہائش دی جانی چاہیے اس کے علاوہ ان کو اور دیگر افراد کی حفاظت کے لیے ایک ہفتہ کی ڈیوٹی کے بعد انہیں دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں بھیجنا چاہیے۔

ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت ورکرز نے انفیکشن کو نجی ہسپتالوں سے درآمد کیا جہاں انہوں نے پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں علاج کے دوران کام کرنے والے عملے میں کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا زیادہ تر وائرس کے بغیر علامات کے مریض نے عملے کو متاثر کیا۔

حادثے اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے عملہ مریضوں بارے میں نہیں جانتے ہیں، ان میں سے بہت سے افراد متاثرہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھی انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

صوبے میں 50 سے زائد ڈاکٹروں اور دیگر صحت ورکرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے بیشتر کورونا وائرس کے تصدیق شدہ مریضوں سے رابطے میں نہیں آئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں