گاڑیاں فروخت کرنیوالوں کا 20 فیصد ملازمین فارغ، تنخواہوں میں کٹوتی کرنے کا انتباہ

اپ ڈیٹ 01 مئ 2020
اگر آمدن نہ ہوئی تو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا گیا قرض ناقابل برداشت ہوجائے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی
اگر آمدن نہ ہوئی تو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا گیا قرض ناقابل برداشت ہوجائے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: گاڑیاں فروخت کرنے والے اپنے 20 فیصد ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے تیار ہیں اس کے ساتھ اگر ملک میں مزید کچھ عرصے تک گاڑیوں کی تیاری بند رہی تو وہ ملازمین کو اپریل اور مئی کی تنخواہیں بھی دینے پر رضامند نہیں ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جاپانی گاڑیاں تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں نے مارچ کے دوسرے ہفتے سے پیداوار بند ہونے کے باوجود ابھی اپنے ملازمین اور عملے کو باہر کا راستہ نہیں دکھایا۔

خیال رہے کہ حکومت کا لگایا گیا لاک ڈاؤن 9 مئی کو ختم ہورہا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اموات کی تعداد میں اضافے کے باوجود حکومت اس میں توسیع کرے گی یا نہیں۔

اس حوالے سے انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) کے ترجمان نے کہا کہ کمپنی نے نہ تو کسی ملازم کو فارغ کیا اور نہ ہی ان کی مئی اور اپریل کی تنخواہوں میں کٹوتی کی۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کی فروخت میں کمی کے باعث آٹو سیکٹر مشکلات کا شکار

اسی طرح ہنڈا اٹلس کارز اور پاک سوزوکی موٹرز نے بھی یکساں ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 ماہ میں کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی تنخواہوں میں کمی کی گئی۔

اس کے برعکس گاڑیاں فروخت کرنے والے تذبذب میں نظر آئے کیوں کہ وہ زیادہ تر مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت پر انحصار کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان ایسوسی ایشن آف پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاپم) کے چیئرمین محمد اکرم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر لاک ڈاؤن میں توسیع ہوئی تو آئندہ آنے والے مہینوں میں ہمیں شاید اپنی افرادی قوت میں 20 فیصد کمی کرنی پڑے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے اراکین نے مارچ کی پوری تنخواہیں ادا کی ہیں لیکن اب ان کی اکثریت اپریل میں 50 سے 60 فیصد کٹوتی یا تنخواہیں ادا نہیں کرسکے گی‘ کیوں کہ مارچ کے وسط سے گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت صفر ہے۔

مزید پڑھیں: سست معیشت کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں کمی

محمد اکرم نے بتایا کہ گاڑیاں فروخت کرنے والے فروخت میں تیزی سے تقریباً 40 فیصد کمی کی وجہ سے کورونا وائرس سے کہیں پہلے جولائی 2019 سے 50 فیصد ملازمین کو فارغ کر چکے ہیں۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پیرول فنانسنگ اسکیم کارگر نہیں کیوں کہ بینک ان سے ضمانت طلب کرتے ہیں جو ان کی ایسوسی ایشن کے اراکین پہلے ہی مالی طور پر تنگی کا شکار ہونے کی وجہ سے فراہم نہیں کرسکتے۔

یوں اگر آمدن نہ ہوئی تو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا گیا قرض ناقابل برداشت ہوجائے گا۔

محمد اکرم نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ اگر لاک ڈاؤن میں توسیع ہوتی ہے تو اس معاملے کے حل کے لیے فوری مداخلت کرے کیوں کہ صنعت کے لیے اپریل اور اس کے بعد تنخواہیں دینا نا ممکن ہوجائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں