کینیا:غربت کے باعث ماں نے بھوکے بچوں کو سلانے کے لیے پتھر پکادیے

اپ ڈیٹ 01 مئ 2020
خاتون گھروں میں کام کرکے گزر سفر کرتی تھیں—فوٹو: بی بی سی
خاتون گھروں میں کام کرکے گزر سفر کرتی تھیں—فوٹو: بی بی سی

مشرقی افریقی ملک کینیا کی ایک مجبور ماں کی جانب سے بھوکے بچوں کو سلانے کے لیے پتھروں کو کھانے کے طور پر پکائے جانے کے واقعے نے حساس دل لوگوں کو جھنجھوڑ دیا۔

کینیا کے دوسرے بڑے شہر ممباسا کی ایک بیوہ ماہ نے 30 اپریل کو بھوک سے نڈھال اپنے 8 کم سن بچوں کو سلانے اور انہیں دھوکا دینے کی غرض سے ہانڈی میں پتھر ڈال کر اسے چولہے پر چڑھا دیا تاکہ ان کے بچے اس آسرے میں رہیں کہ ان کی ماں ان کے لیے کھانا تیار کر رہی ہیں اور وہ اسی انتظار میں سو جائیں۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے واقعے کو سنتے ہی کئی حساس دل لوگ اشکار ہوگئے اور ایک پڑوسی کی مدد سے بچوں کے لیے پتھر پکانے والی ماں کو کینیا بھر سے لوگوں نے امداد بھجوادی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق 8 بچوں کی بیوہ ماں پنینا بہتی کٹساؤ نے اس وقت پتھروں کو پکایا جب ان کے بچے بھوک سے نڈھال ہونے کے بعد ان سے کھانا طلب کر رہے تھے مگر ان کے پاس انہیں کھلانے کو کچھ نہ تھا تو انہوں نے بچوں کو دھوکا دینے کی غرض سے پتھروں کو ہانڈی میں پکانا شروع کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کینیا کے ٹی وی چینل کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ خاتون کے شوہر گزشتہ سال دہشت گردوں کی جانب سے مارے گئے تھے، جس کے بعد خاتون گھروں میں کام کرکے گزر سفر کر رہی تھیں۔

خاتون نے بچوں کو آسرے میں رکھنے کے لیے پتھروں کو پکانا شروع کیا—فوٹو: بی بی سی
خاتون نے بچوں کو آسرے میں رکھنے کے لیے پتھروں کو پکانا شروع کیا—فوٹو: بی بی سی

بیوہ خاتون گھر گھر جاکر کپڑے دھوتی تھیں اور اس سے ہونے والی کمائی سے اپنے گھر کے اخراجات چلاتی تھیں مگر کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی وجہ سے ان کا کام رک گیا اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

بیوہ خاتون بجلی اور پانی کی سہولت کے بغیر والے 2 کمروں کے گھر میں رہتی ہیں اور انہوں نے 30 اپریل کو جب ہانڈی میں پتھر پکائے تو ان کے بچوں نے کھانے میں تاخیر ہونے پر رونا شروع کیا تو ایک پڑوسی خاتون یہ جاننے کے لیے ان کے گھر آئیں کہ ان کے بچے اتنا کیوں رو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘کورونا کی وبا نصف ارب لوگوں کو غربت میں دھکیل سکتی ہے‘

پڑوسی خاتون نے ہی میڈیا سمیت دیگر افراد کو مطلع کیا کہ بیوہ خاتون نے بچوں کو سلانے کے ہانڈی میں پتھر پکائے۔

واقعے کی بات باہر آنے کے بعد بیوہ خاتون نے کینیا کے ٹی وی چینل این ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کےپاس پتھر پکاکر بچوں کو آسرے پر سلانے کے لیے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں نے ہانڈی چڑھانے کے بعد متعدد بار ان سے کھانے کے حوالے سے دریافت بھی کیا اور پوچھا کہ وہ کیا تیار کر رہی ہیں، تاہم وہ بچوں کے سوالوں پر خاموش رہیں، کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ درحقیقت وہ کچھ نہیں پکا رہیں۔

بیوہ خاتون نے بتایا کہ پڑوسی خاتون نے ان کی مدد کی اور انہوں نے دیگر افراد کو بھی واقعے سے متعلق بتایا جب کہ انہوں نے انہیں موبائل پر اکاؤنٹ بھی کھول کر دیا جس پر کینیا بھر سے لوگوں نے پیسے بھیجنا شروع کردیے ہیں۔

بیوہ خاتون نے کینیا بھر سے مدد ہونے کو معجزہ قرار دیا اور پڑوسی خاتون سمیت ان تمام افراد کا شکریہ بھی ادا کیا، جنہوں نے ان کی مدد کی۔

مزید پڑھیں: کورونا سے تحفظ کے اقدامات خوراک کی قلت کا باعث بنیں گے، یو این

خیال رہے کہ کینیا کی حکومت نے مارچ سے لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد غریب لوگوں کو گھروں تک راشن اور اشیائے ضروری پہنچانے کے منصوبوں کا بھی آغاز کر رکھا ہے، تاہم تاحال اس منصوبے سے لاکھوں لوگ مستفید ہونے سے محروم ہیں۔

کینیا کی حکومت کے علاوہ وہاں پر کام کرنے والی عالمی فلاحی تنظیمیں بھی لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو راشن اور پیسوں کی فراہمی کر رہی ہیں، تاہم تاحال ایسے منصوبوں سے لاکھوں غریت لوگ مستفید نہیں ہو پائے۔

کینیا میں اگرچہ کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد انتہائی کم ہے، تاہم وہاں پر ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے عالمی برادری اور عالمی تنظیمیں کینیا کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

کینیا میں یکم مئی کی صبح تک کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 400 سے بھی کم تھی جب کہ وہاں کورونا سے محض 17 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

کینیا کے علاوہ براعظم افریقہ کے دیگر ممالک میں بھی کورونا کے ٹیسٹ کی رفتار سست ہونے پر عالمی برادری اور عالمی تنظیموں نے خدشات کا اظہار کیا ہے اور وہاں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کورونا کے حوالے سے جلد اور سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں